تحریر:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
آج مرکز جماعت اسلامی ہند کیمپس میں واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ کے جلسۂ تقسیم اسناد میں شرکت کرکے بہت خوشی ہوئی _ اس کی تاسیس اصلاً ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری نے سینٹر فار ریلیجیئس اسٹڈیز اینڈ گائیڈنس کے نام سے کی تھی ، بعد میں اس کا نام اسلامی اکیڈمی رکھا گیا _ ان کے انتقال کے بعد اس کی تشکیلِ نو جماعت اسلامی ہند کے ذمے داروں کے ذریعے کی گئی _ اسے ایک ٹرسٹ کی حیثیت سے رجسٹرڈ کروایا گیا _ اس کے تحت انسٹی ٹیوٹ کی تشکیل کی گئی اور تقابلِ ادیان اور فکر اسلامی کے ڈپلومہ کورسز جاری کیے گئے _ ۔
اس انسٹی ٹیوٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں فارغینِ مدارس اور یونی ورسٹی گریجویٹس دونوں کو داخلہ دیا جاتا ہے _ فارغینِ مدراس کو انگریزی زبان و ادب کے ساتھ جدید علوم : سماجیات ، سیاسیات ، فلسفہ ، تصوف ، تاریخ اسلام ، تاریخ ہند ، مذاہب ، تحریکات اسلامی وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں _ یونی ورسٹی گریجویٹس کو عربی زبان و ادب ، عربی گرامر ، قرآن و علوم قرآن ، حدیث و اصول حدیث ، اصول فقہ اور دیگر دینی مضامین پڑھائے جاتے ہیں _ طلبہ سے ایک مبسوط تحقیقی مقالہ لکھوایا جاتا ہے _ ان کی معاون درسی سرگرمیاں بھی جاری رہتی ہیں _ ۔
انسٹی ٹیوٹ سے اب تک تقریباً سو طلبہ فارغ ہوچکے ہیں _ آج کا پروگرام ان کے درمیان اسناد کی تقسیم (Convocation) کا تھا _ اس پروگرام کے مہمانِ خصوصی مولانا محمد سفیان قاسمی مہتمم دار العلوم دیوبند (وقف) اور جامعہ ہمدرد نئی دہلی کے وائس چانسلر جناب افشار عالم تھے _ اس طرح انسٹی ٹیوٹ کے مستفیدین کی طرح کانووکیشن کے مہمانانِ خصوصی بھی قدیم اور جدید تعلیم گاہوں کی نمائندہ شخصیات تھیں۔
پروگرام کی ابتدا میں ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر حسن رضا نے تفصیل سے انسٹی ٹیوٹ کے مقصدِ تاسیس اور اس کی اب تک کی سرگرمیوں کا تعارف کرایا _ جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر نے اپنے یہاں شعبۂ اسلامک اسٹڈیز میں داخلہ کی سہولیات کا تذکرہ کرتے ہوئے دعوت دی کہ انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ ان سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں _ مولانا سفیان قاسمی نے یہاں تشریف آوری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے طلبہ کو قیمتی نصیحتوں سے نوازا _ مولانا سید جلال الدین عمری چیرمین شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند نے اپنے صدارتی خطاب میں موجودہ دور میں علمی تحقیقات کی ضرورت بتائی اور اسلام کے مختلف پہلوؤں پر اعتراضات کا جواب دیے جانے پر زور دیا _ انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری ڈاکٹر رضوان احمد رفیقی نے کام یابی کے ساتھ پروگرام چلایا _۔
اس پروگرام کو کانوکیشن کے طرز پر مرتّب کیا گیا تھا اور اس کا مخصوص ڈریس بھی فراہم کیا گیا تھا _ فارغین کو سیاہ گاؤن ، اساتذہ کو سرخ گاؤن اور مہمانوں کو سفید گاؤن مخصوص ٹوپی کے ساتھ پہنایا گیا تھا _ اس انسٹی ٹیوٹ میں راقم سطور یونی ورسٹی گریجویٹس کو متنِ حدیث ، اصول حدیث اور اصول فقہ پڑھاتا ہے _ اس پروگرام میں اپنے بہت سے شاگردوں سے ملنے سے خوشی دوبالا ہوگئی _ انھوں نے بہت زیادہ محبت اور اپنائیت کا اظہار کیا _ پروگرام میں چند منٹ مجھے بھی اظہارِ خیال کا موقع دیا گیا _ تمام فارغین کو مہمانوں اور اساتذہ کے ذریعے سرٹیفکیٹس دلوائے گئے _ ہر سال کے ٹاپر اسٹوڈنٹس کو مومنٹو بھی دیے گئے _ مہمانوں کو یادگار شیلڈس پیش کی گئیں _ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میرے ذریعے مولانا سفیان قاسمی کو شیلڈ دلوائی گئی _ ۔
انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے قدیم اور جدید تعلیمی دھاروں کو ملانے کی ایک قابلِ قدر کوشش انجام دی جارہی ہے _ ’الجمع بین القدیم الصالح و الجدید النافع‘ کا نعرہ ندوہ نے بلند کیا تھا ، جسے جماعت اسلامی ہند کے اس انسٹی ٹیوٹ نے اختیار کرلیا ہے _ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انسٹی ٹیوٹ کو ترقی دے اور اس کے ذریعے مفید خدمات انجام پائیں ۔