ـ اشعر نجم
آج ‘ہندی دِوس (یوم ہندی) ہے۔ ہندوستان اور کئی ریاستوں کی سرکاری زبان ۔ سننے میں کتنا اچھا لگتا ہے اور ہم میں سے اکثر اسی حوالے سے سوچتے ہیں کہ اردو کے سوا ہر جگہ خیریت ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی کے سوا سب خطرے میں ہیں۔ اب اردو اسکولوں کی طرح ہندی اسکول بھی خطرے میں ہیں کیوں کہ وہاں صرف وہی بچے پڑھنے جاتے ہیں جن کے والدین انھیں انگریزی اسکول میں پڑھانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔بیشتر ہندی اخبار بھی تقریباً اردو اخباروں کی طرح ایک کمیونٹی میں سمٹ چکے ہیں چونکہ ان میں سے بیشتر اپنی اُکھڑی ہوئی سانس کو بحال کرنے میں مصروف ہیں۔ جس طرح اردو کے بڑے پروفیسروں اور دانشوروں کے بچے انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں، اسی طرح پریم چند کے دونوں بیٹوں نے انگریزی میڈیم ہی سے تعلیم حاصل کی۔ اگیے، نرمل ورما، رگھوویر سہائے، راجیندر ماتھر، اشوک باجپئی اور وشنو کھرے جیسے معروف ہندی ادیبوں کے بچوں نے بھی انگریزی میڈیم سے ہی اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس لیے صرف یہ سمجھنا کہ اردو ہی زد میں ہے، محض دوسری ہندوستانی زبانوں کے احوال سے بے خبری کا ثبوت ہے۔ آج ہندی کے ایک مضمون پر نظر پڑی، اچھا لکھا ہوا تھا، اسی میں ہندی کے تناظر میں کچھ ایسی باتیں تھیں کہ پرانے زخم ہرے ہوگئے۔لیکن میں اس صورت حال کو صرف ہندی کے تناظر کی بجائے جب ہندوستان کی تمام زبانوں کے حوالے سے دیکھتا ہوں تو منظر نامہ تقریباً ایک جیسا ہی نظر آتا ہے۔
ذرا سوچیے کہ کیا وجہ ہے کہ اردو یا ہندی کا کوئی ادیب صرف فکشن لکھ کر اپنا پیٹ نہیں بھر سکتا جب کہ اسی ہندوستان میں ارون دھتی رائے، وکرم سیٹھ اور چیتن بھگت جیسے ادیب صرف اپنے لکھے کی کمائی کھا رہے ہیں اور صرف کھا نہیں رہے بلکہ زندگی کی تمام جدید سہولتیں انھیں میسر ہیں۔ لیکن ایسا کیوں؟ کیا ہندی ، اردو اور ہندوستان کی دیگر علاقائی زبانوں کے لکھنے و الے ان سے کم اچھا لکھ رہے ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ کئی علاقائی زبانوں کے ادیبوں اور بطور خاص کئی ہندی ادیبوں کے پاسنگ برابر بھی نہیں ہیں ۔ تو پھر وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف ان کا انگریزی میں لکھنا ہے۔ نرمل ورما بلاشبہ ہندی کا بہت بڑا نام ہے لیکن انھیں بھی زندگی گزارنے کے لیے انگریزی میں لکھنا پڑتا تھا۔ راجیندر یادو صرف اپنی تحریروں سے زندہ نہیں تھے بلکہ ‘ہنس’ جیسا مقبول پرچہ بھی انھیں کمک پہنچا تا رہا جس کا اپنا کمرشیل دائرہ ہے۔ اُدے پرکاش جو آج ہندی کے سب سے معروف ادیب تسلیم کیے جاتے ہیں، انھیں زندگی گزارنے کے لیے کیا کیا کرنا پڑتا ہے، وہ ان کے قریبی لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔
جب ہم ہندوستانی ادب یا انڈین لٹریچر کہتے ہیں تو اس سے مراد عموماً یہی ہوتا ہے کہ ہندوستانی ادیبوں یا انڈین رائٹرز کے ذریعہ لکھا ہوا ادب۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ’انڈین لٹریچر‘ کی اصطلاح اس وقت سننے کو ملتی ہے جب کوئی غیر ملکی قاری ’انڈین رائٹرز کی لکھی ہوئی انگریزی کتاب‘ اپنےہاتھ میں اٹھاتا ہے یا جب ہندوستانی زبانوں کے کچھ منتخب مصنفین، رائٹرز فرینکفرٹ، پیرس، لندن، ماسکو وغیرہ جیسے شہروں میں اکٹھا ہوتے ہیں اور ان کی پذیرائی ہندوستانی ادیبوں یا انڈین رائٹرز کی حیثیت سے ہوتی ہے۔نتیجتاً انھی ہندوستانی ادیبوں کی تخلیقات کو ہندوستانی ادب ہونے کا فخر حاصل ہوا جو انگریزی میں لکھتے ہیں۔ پھر یہ ہوا کہ گزشتہ تیس سالوں میں ہندوستان کی تقریباً تمام زبانوں کے قارئین کا ایک ایسا بڑا حلقہ وجود میں آیا جس نے انگریزی کتابوں کے بازار کو گرم کیا۔ ہندوستان میں بڑے اور قومی سطح کے لٹریری فسٹیول انگریزی لکھنے والوں کو ہی دھیان میں رکھ کر منعقد کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا جو دِکھتا ہے وہ بِکتا ہے والے فارمولے نے ادبی سطحیت کو فروغ دیا جسے ہم آج یہاں بھوگنے پر مجبور ہیں اور سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ انڈین لٹریچر کی شناخت یہی اُتھلا پن بن چکی ہے۔ ظاہر ہے یہ گلیمر بھرے انگریزی لٹریری فیسٹیول ہندوستانی زبانوں کے ادیبوں کو اپنے بونے پن کا احساس دلانے کے لیے کافی ہیں۔ سلمان رشدی نے ۱۹۹۷ میں کہا تھا کہ ‘ورنا کولر’ زبانوں کے مقابلے میں انگریزی میں زیادہ اہم ادبی تخلیقات سامنے آ رہی ہیں۔ میرے خیال میں ہمارے معروف ادیب بھی کھل کر نہیں تو دبی زبان میں یہی سوچتے اور کہتے ہیں، حالاں کہ زیادہ تر ہندوستانی ادیبوں کی انگریزی میں لکھی کتابیں ’ائیر پورٹ لٹریچر‘ ہوتی ہیں۔
ہم سب مررہے ہیں،رفتہ رفتہ،تھوڑا پہلے میں، تھوڑا بعد آپ، ہندی اردو کا جھگڑا ہم بعد میں نمٹا لیں گے لیکن جھگڑنے کے لیے بھی دونوں کا زندہ رہنا ضروری ہے۔