کیپٹن محمد تقی سیڑم
(سماجی کارکن،آسٹریلیا (پرتھ)
اردو کئی صدیوں سے ہماری مذہبی، تہذیبی اور تاریخی زبان رہی ہے۔ ہمارے مذہبی اور علمی سرمایہ کا بڑا حصہ اسی زبان میں تحریر کیا گیا ہے، افسوس کی بات ہے کہ ہماری نئی نسل اردو سے ناواقف ہوتی جارہی ہے، اردو نہ جاننے کی وجہ سے یہ نسل اپنے مذہبی اور تاریخی سرمایہ سے بھی محروم ہے، اگر کوئی قوم اپنی مذہب، اقدار، تہذیب اور زبان سے ناواقف ہوجائے تو اسے جلد یا بدیر مٹنے یا دوسری تہذیبوں میں ضم ہونے میں دیر نہیں لگتی۔
اردو کے تعلق سے ہماری سرد مہری اور بے توجہی افسوس ناک ہے جس کا خمیازہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا، اس لیے میں تمام والدین سے درخواست کروں گا کہ اپنے بچوں کو اردو زبان ضرور پڑھائیں، اسکولوں میں اردو مضامین داخل کروانے کی کوشش کریں، ان اسکولوں کو ترجیح دیں، جہاں اردو کی بھی تعلیم کا نظم ہو، گھروں پر ہم جس طرح قرآن مجید اور دینیات کے ٹیوشن کا نظم کرتے ہیں اسی طرح اردو بھی پڑھائیں، اردو کتابیں اخبارات وسائل کے خریدار بنیں، ان کی سرپرستی کریں، اپنے گھروں میں اردو بول چال کو رواج دیں۔
اردو زبان کے تعلق سے ہماری تھوڑی سی فکر مندی ان شاء اللہ ہمارے لیے بہت فائدہ مند ہوگی اور اس کے ذریعہ ہم اپنی اقدار، روایات، تہذیب اور مذہب کا بڑی حد تک تحفظ کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اللہ ہمیں اس اہم مسئلے کی طرف متوجہ ہونے کی توفیق دے۔آمین ۔
محترم والدین آپ کے بچوں کے ٹیچر استاد آپ خود ہیں ۔
اپنے بچوں کو آنے والے دور کے لیے تیار کریں
جسمانی طور پر بھی ذہنی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی
ان کو اردو انگریزی اور عربی لازمی طور پر سکھائیں، اسلامی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں مکمل آگاہ کریں۔
اپنے بچوں کو لازماً ہنر سکھائیں، کوئی نہ کوئی ہاتھ کا کام جو ان کو مصروف بھی رکھے اور جس سے آنے والے وقت میں یہ کارامد ہو سکیں۔
سلطان عبدالحمید کارپینٹر تھے، لکڑی سے بنایا ہوا ان کا فرنیچر آج بھی محفوظ ہے۔
سلطان سلیمان زیورات بناتے تھے۔
اورنگ زیب بادشاہ قرآن کریم لکھتےتھے۔
اپنے بچوں کی جسمانی اور ذہنی طور پر لازماً ایسی تربیت کریں کہ مشکل اور نامساعد حالات میں وہ برداشت کرنے کے قابل ہوں، جس طرح بوائے سکاوٹ یا کیڈٹ کی تربیت ہوتی ہے، جنگل میں خیمہ لگانا، آگ جلانا، کھانے پکانا، شکار کرنا اور ہتھیار چلانا۔
آج کل ہمارے بچے بہت آرام طلب اور نازک ہو چکے ہیں، ماضی میں ہمارا تمام تر تعلیمی نظام بچوں کو دین اور ادب کے ساتھ ہنر بھی سکھاتا تھا، تمام مسلمان اپنے ہاتھوں میں مخصوص ہنر رکھتے تھے اور ہاتھ سے کام کرتے تھے۔کوئی لوہے کا کام جانتا تو کوئی لکڑی کا، کوئی کپڑا بناتا تو کوئی چمڑے کا، کوئی مرغبانی کرتا تو کوئی گلہ بانی یا کاشتکاری…
آگے آنے والا دور مشکلات اور جنگوں کا دور ہے، اپنے بچوں کو اس کے لئے تیار کریں۔ اب ڈگریاں ہاتھ میں لے کر کالج سے نکل کر نوکریاں تلاش کرنے کا دور ختم ہوگیا۔ بہت سے لوگ ابھی بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ دنیا دوبارہ پرانی ڈگر پر واپس چلی جائے گی، آپ ہوش میں آ جائیں دنیا بدل گئی ہے، اب دنیا دوبارہ اس ڈگر پہ کبھی نہیں لوٹے گی۔ اب ہم دجالی دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں، ایک کورونا نے ہی کیسا گھما دیا ہے۔
آگے کے فتنے اس سے بھی مزید سخت ہوںگے، اور یہ کوئی فرضی بات نہیں، ایک تو سب حالات آنکھوں کے سامنے ہیں، اور مزید ان سب حالات کی خبر افضل الرسل سرکار دو عالم نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی ہوئی ہے کہ یہ سب ہو کر رہے گا، اب بچے گا وہی جو چوکنا ہو گا، دانشمندی اور ایمان و عمل کو اختیار کرے گا، اس لیے ایمانی، جسمانی، روحانی، اعصابی مضبوطی بہت ضروری ہے، اگر زندہ رہنا ہے اور ان تمام فتنوں سے بچنا ہے تو اب ذرا جاگ جائیں…!!!
لڑکا پڑھاؤ لڑکی بچاؤ
کبھی اپنے نوجوانوں کی حالت پر غور کریں، رات رات بھر الّوؤں کی طرح جاگ کر ان کی آنکھیں چہرے کے سیاہ حلقوں میں دھنس گئی ہوتی ہیں، پان تمباکو اور گٹکھوں کی عادت نے ان کے دانت سڑا دیے ہوتے ہیں اور گال اس حد تک پچکا دیے ہوتے ہیں کہ جبڑے چہرے کے اوپر سے دکھائی دیتے ہیں، تعلیم کا معاملہ یہ ہے کہ دسویں تک پہنچتے پہنچتے چوں بول جاتے ہیں، نہ ان کو بات کرنے کا سلیقہ ہوتا ہے نا اٹھنے بیٹھے کی تمییز، نہ ان کے پاس گت کی جاب ہوتی ہے نہ کاروباری ذہن۔نہ تعلیم، نہ صحت، نہ علم، نہ اخلاق، نہ شعور نہ تمییزآپ بتائیے ایک پڑھی لکھی، ڈیسنٹ لڑکی جس نے بچپن سے ہی ٹی وی اور فلموں سے سیکولرازم کا درس لیا ہو کیا محض اس وجہ سے ان لڑکوں سے شادی کرلے گی کہ یہ مسلمان ہیں؟نہیں، وہ زمانہ لد گیا جب اچھی خاصی سرکاری اسکول کی ٹیچر رکشا ڈرائیور سے بھی چپ چاپ شادی کرلیا کرتی تھی۔ اب نیا دور ہے، آپ لڑکوں کو نہیں پڑھائیں تو یہ لڑکیاں دین سے ناطہ توڑ کر کافروں سے پلّو باندھ لیں گی۔
ہم سیاسی جماعتوں کو تنقید کرنے کے بجائے ہم اپنا ایک پلیٹ فارم بنائیں گے تو ہماری آنے والی نسلیں بہت اچھا رہے گا ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی اپنا احتساب کریں۔ یہ صرف سعودی عرب کا کوئی ایک قصہ نہیں ہے، پورے مشرق وسطیٰ میں روزگار کے نئے چیلنجز سے نمٹنے کی پالیسیاں اور پروگرام بنائے جارہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے نکلنے والے انگریزی اخبار خلیج ٹائمز نے 5؍ ستمبر 2021ء کو دوبئی سے خبر دی ہے کہ ڈاکٹر ثانی بن احمد الزیودی امارات کے وزیر برائے غیر ملکی تجارت ہیں۔ انہوں نے اطلاع دی کہ ملک میں ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے اب 15 برس کے بچوں کو بھی کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
یہ اجازت ان بچوں کو ہوگی جو ابھی طالب علم ہیں۔ یہ بچے اس اجازت سے نہ صرف کام کرنا سیکھ جائیں گے بلکہ امارات کی معیشت کے لیے بھی اثاثہ ثابت ہوں گے۔ اماراتی وزیر کے مطابق وہاں پر ابھی تک 18 سال سے کم عمر بچوں کو ہی والدین اسپانسر کرسکتے تھے لیکن اب گرین ویزہ رکھنے والے لوگ اپنے بچوں کو 25 برس کی عمر تک اسپانسر کرسکیں گے۔
ہندوستانی مسلمان کیا کر رہا ہے۔ ذرا غور کریں آر ایس ایس، بی جے پی کو کوسنے سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ مسلمانوں کو آج سب سے بڑی شکایت قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور انصاف کے لیے قائم ادارں سے ہے۔ کتنے ادارے ہیں جو مسلمانوں کی پولیس اور نیم فوجی دستوں میں شمولیت کے لیے تربیت دے کر ٹھوس کام کر رہے ہیں۔
کتنے مسلم اقلیتی ادارے ہیں جہاں پر مسلمانوں کو وکیل بننے اور وکالت کی تعلیم کے لیے ترغیب اور اسکالر شپس دی جارہی ہیں۔ضرورت آج اس بات کی ہے مسلمان خود دین اسلام کی صحیح تعلیمات سے آراستہ ہوں اور وقت کی نزاکت کو اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے خدمت خلق کے راستے کو اختیار کریں تاکہ برادران وطن کی غلط فہمیاں دور ہوں۔
ورنہ میڈیا تو دیگر برادران وطن کے ذہنوں میں ہر صبح و شام فرقہ واریت، تعصب اور نفرت کا زہر پھیلاتا جارہا ہے۔ دینی جماعتیں تو اپنا کام کر رہی ہیں۔ اب ہر مسلمان کا بھی فرض ہے کہ وہ بڑے ڈپلومیٹک انداز میں خدمت خلق کے سہارے برادرانِ وطن کے دلوں کو موم کریں۔
اسلام کی سچی تصویر اور نبی کریم ﷺ کا پیغامِ محبت عام کریں۔ ساتھ ہی محنت کے راستے کامیابی کی منزلیں طے کرنے والوں کی ہمت افزائی ہو، تاکہ معاشی مشکلات سے باہر نکلنے کے لیے مسلم نوجوان محنت سے جی نہ چرائیں او ر جرائم کے راستے سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی مدد آپ کریں اور نیکی اور بھلائی کا کام شروع کرنے کے لیے ارادہ کریں۔ صرف وسائل کا انتظار نہ کریں۔