تحریر: عبد المتین منیری-بھٹکل
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کے انتقال کی رحلت نے واقعی غمزدہ کردیا، آپ کی عمر اندازا پچانوے کے قریب تھی،آپ اور مولانا محمد سالم قاسمیؒ، مولانا سید اسعد مدنیؒ،مولانا سلیم اللہ خانؒ اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم ہم جولی وہم درس تھے، ان کی حیثیت قوس قزح کے رنگوں کی تھی، جن میں سے اب ایک ہی رنگ باقی نظر آرہا ہے، اللہ آپ کا سایہ تادیر قائم رکھے، کیونکہ اب آپ کی بھی عمر (93) بہاروں کو متجاوز کررہی ہے۔
1960ء اور1970ء کی دہائی مولانا عتیق الرحمن مرحوم کی شہرت اور عروج کی تھی، اس وقت الفرقان کے صفحہ اول پر مولانا منظور نعمانی صاحب کے ساتھ بحیثیت مرتب آپ کا نام چھپتا تھا، ان ایام میں ہفت روزہ ندائے ملت لکھنؤ مسلمانان ہند کی ایک آواز ہوا کرتی تھی، جس ادارت آپ کے بھائی مولانا حفیظ نعمانی مرحوم کیا کرتے تھے، اس میں بھی مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کے مضامین ملی مسائل پر چھپتے رہتے تھے۔
الفرقان کی حیثیت صرف ایک مجلہ کی نہیں ہے، بلکہ اس کی حیثیت ایک ادارے اور تحریک کی ہے، اس نے علمائے دیوبند میں سے ان اہل قلم کو برصغیر میں روشناس کرایا جنہوں نے آسان اور سلیس انداز میں قرآن اور دین کے فہم کو اپنی تحریروں میں پیش کیا، قاری میں یہ انداز فکر اور تدبر پر آمادہ کرتا تھا، اوریہ مجلہ جدید حلقوں میں بھی دلچسپی سے پڑھا جاتا تھا، اس میں شک نہیں کہ مولانا مناظر احسن گیلانی علیہ الرحمۃ وغیرہ کئی ایک بڑے اہل قلم کی تحریروں کے حلقے کو وسیع کرنے، اور آفاق میں انہیں پھیلانے میں الفرقان لکھنو کا بڑا ہاتھ تھا، اور الفرقان صرف مولانا منظور نعمانی کانام نہیں تھا، بلکہ آپ کے زیر سایہ آپ کے جانشین مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا بھی اس میں بڑا کام تھا، اپنے بانی مدیر کے شانہ بہ شانہ قدم بہ قدم آپ ہی ہمیشہ رہے۔
چند عرصہ آپ نے علمی ودعوتی میدان کے لئے سرزمین انگلستان کو چنا اور حقیقت تو یہ ہے، اس دوران برصغیر میں مولانا کے قارئین ربط پہلے جیسا نہیں رہا۔
احباب کی پوسٹوں سے معلوم ہورہا ہے کہ اپنے والد ماجد کی طرح قرآن مجید کے پیغام کو آسان پیرائے میں پیش کرنا آپ کا بھی طرہ امتیاز تھا۔ لیکن یہ ہمارا ایک عجیب قومی مزاج بن گیا ہے کہ ہم مصنف کی کسی کتاب پر تنازعہ ہوجاتا ہے،اور اس کے کچھ لوگ ساتھ دینے والے کچھ مخالفت کرنے والے نکل آتے ہیں تو اسی کو کارنامہ قرار دینے لگتے ہیں ،اور اسے مصنف کی شناخت بنادیتے ہیں، یہ رویہ منفی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
انگلینڈ سے واپسی اور مولانا نعمانی علیہ الرحمۃ کی کتاب ایرانی انقلاب اور امام خمینیؒ کے منظر عام پر آنے کے بعد آپ کی کتاب ( واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر ) شائع ہوئی تھی، یہ مولانا کی دوسری کئی ایک کتابوں میں سے ایک تھی، آپ کی پہچان تو ( محفل قرآن ) جیسی کتابیں ہیں، رہی بات (واقعہ کربلا ) کی تو مولانا نعمانی اور آپ کے چاہنے والے ایک موقر طبقہ کی رائے یہ ہے کہ اس کتاب کا نقصان فائدہ سے زیادہ ہوا، اور اس سے مولانا کی اصل شناخت چھپ سی گئی۔
مولانا کی زندگی دعوت دین کی فکر اور اس کی خدمت میں گذری، آپ کے قلم وزبان سے بہتوں کو ہدایت ملی، اللہ آپ کے درجات بلند کرے، یہ شخصیات اللہ تعالی کی طرف سے ایک نعمت ہیں، جب اٹھا جاتی ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ایک سایہ دار درخت ٹوٹ گیا، اور دوپہر کی کڑی دھوپ میں ہم لق ودق صحرا میں آگئے۔ اللھم اغفرلہ وارحمہَ