اٹاوہ (نمائندےسے )
بھارت کے سابق صدر جمہوریہ، عظیم سائنس داں، ماہرِ تعلیم، مصنف، مفکراور میزائل مین، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی 94 ویں سالگرہ کے موقع پر مدرسہ عربیہ قرآنیہ اٹاوہ میں ایک عظیم الشان تعلیمی و فکری تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں اساتذہ، طلبہ اور معزز مہمانوں نے ڈاکٹر کلام کی زندگی، خدمات اور افکار پر تفصیلی گفتگو کی۔
مدرسہ کے مہتمم مولانا طارق شمسی نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ ڈاکٹر عبدالکلام صرف ایک سائنس داں نہیں بلکہ ایک مصلح، مخلص رہنما اور درویش مزاج انسان تھے۔ ان کی پوری زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ علم کے ساتھ ایمان، اخلاق و وطن سے محبت لازم ہے۔
انہوں نے طلبہ کو نصیحت کی کہ وہ ڈاکٹر کلام کے اس پیغام کو اپنائیں کہ خواب وہ نہیں جو نیند میں دیکھے جائیں، خواب تو وہ ہیں جو نیند اڑادیں۔
مولانا نے کہا کہ مدرسہ عربیہ قرآنیہ ہمیشہ ایسی علمی اور فکری محفلوں کے انعقاد سے طلبہ کی فکری صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا رہے گا۔
نائب مہتمم مولانا محمد سعد قاسمی نے اپنے پُراثر خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر کلام نے یہ ثابت کیا کہ علم اور ایمان کا امتزاج انسان کو اعلیٰ مقام تک پہنچا سکتا ہے۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ اخلاص، سادگی اور خدمتِ خلق سے عبارت تھا۔ وہ کبھی اقتدار کے نشے میں نہیں آئے، بلکہ ہمیشہ طالب علموں کے درمیان بیٹھ کر انہیں حوصلہ اور رہنمائی دیتے رہے۔انہوں نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ملک کے مستقبل کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں تو علم و کردار دونوں کو اپنائیں۔ یہی ڈاکٹر کلام کا حقیقی پیغام ہے۔

مقرر خصوصی مدرسہ کے ناظم تعلیمات مولانا مفتی ڈاکٹر معراج احمد قاسمی نے اپنے تفصیلی خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر عبدالکلام کی شخصیت میں ایمان، علم، محنت اور انکساری کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔ وہ سائنسی ترقی کو اخلاقی تربیت کے ساتھ جوڑنے کے قائل تھے۔ اُنہوں نے نئی نسل کو یہ پیغام دیا کہ علم اگر خدمتِ انسانیت کے لیے استعمال نہ ہو تو وہ نامکمل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر کلام کی کتابیں جیسے "Wings of Fire” اور "Ignited Minds” آج کے نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کی سوچ میں قوم پرستی، دیانت، عاجزی اور علم دوستی کا عطر بسا ہوا ہے۔
تقریب کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا، جس کی سعادت مدرسہ کے طالبِ علم محمد عمر سعید اور محمد زکریا نے حاصل کی۔ بعد ازاں محمد ابوبکر و محمد یحییٰ نے نعتِ رسولِ مقبول ﷺ پیش کیں، جس نے محفل کو روحانی کیف و سرور سے معمور کر دیا۔ اس کے بعد ناظمِ جلسہ محمد عباد متعلم عربی چہارم نے ڈاکٹر کلام کی خدمات کا مختصر تعارف پیش کیا اور ان کے نظریۂ تعلیم و اخلاق پر گفتگو کی۔
تقریب میں مختلف طلبہ نے اپنے تحریر کردہ مقالات اور مختلف زبانوں میں اپنی تقاریر پیش کیں، جن میں ڈاکٹر عبدالکلام کی سادہ زندگی، ان کی سائنسی ایجادات، ملک کی دفاعی ترقی میں ان کے کردار، اور تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ان کی انتھک جدوجہد پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔
طالبِ علم ابوذر نے اپنی تقریر میں کہا کہ ڈاکٹر کلام نے ثابت کیا کہ غربت اور سادہ پس منظر کے باوجود، عزم و محنت سے انسان دنیا کی بلند ترین چوٹیوں تک پہنچ سکتا ہے۔جبکہ محمد عدنان نے بتایا کہ ڈاکٹر کلام صرف ایک سائنس داں نہیں بلکہ ایک مثالی انسان تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو قوم کے نام وقف کر دیا۔ ان کے علاوہ محمد الفیض، محمد انس، ابو دجانہ وقاص، محمد معوذ اسید، محمد سلمان اور محمد ابوذر انیس نے ڈاکٹر کلام کی زندگی کے چھپے ہوئے گوشوں اور ملک و ملت کے لیے ان کی گوناگوں خدمات کو طلبہ کے سامنے اجاگر کیا۔
پروگرام کا اختتام دعاء پر ہوا جس میں ملک کی خوشحالی، امن، ترقی، اور طلبہ کے روشن مستقبل کے لیے خصوصی دعا کی گئیں۔ہال میں موجود سامعین نے بارہا مقررین کے کلمات پر تالیوں سے دادِ تحسین پیش کی۔ پورا ماحول ڈاکٹر کلام کی سادہ مگر عظیم شخصیت کی خوشبو سے مہک اٹھا۔مدرسہ کے مہتمم مولانا طارق شمسی نے اس موقع پر اعلان کیا کہ آئندہ برسوں میں بھی ڈاکٹر عبدالکلام کی یاد میں تعلیمی ہفتہ منایا جائے گا، جس میں طلبہ کو تحقیقی اور سائنسی سرگرمیوں میں شرکت کا موقع دیا جائے گا تاکہ وہ ان کے مشن کو آگے بڑھا سکیں۔








