عبدالسلام عاصم
بلیم گیم پہلے صرف اپنے اعمال سے ناتواں اور کمزور قوموں کا کھیل ہوا کرتا تھا۔ بُرا ہو نیابتی جنگوں کے نتیجے میں ترقی یافتہ اور پسماندہ ملکوں کی رات دن کی اُس صحبت کاجس کے زیر اثر اب طاقتور قومیں بھی بلیم گیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگی ہیں۔ اِس کھیل میں جس طرح کمزوروں کی قیادت کمزور ترین قوم کیا کرتی ہے ٹھیک اسی طرح طاقتوروں میں بھی سب سے طاقتور امریکہ نے بلیم گیم کے لیگ مقابلے میں اپنی اننگ کی شروعات کر دی ہے۔
طالبان کا افغانوں کی قسمت کا پھر سے فیصلہ ساز بن جانا محض ایک واقعہ نہیں۔ مہذب دنیا جہاں اِس تبدیلی پر حیرت اور افسوس کا اظہار کر رہی ہے وہیں یساری چین اور یمینی پاکستان سمیت ایک سے زیادہ انتہائی نظریاتی سوچ رکھنے والے عناصر اِس موقع کو بھنانے میں لگ گئے ہیں۔ اِس رُخ پرامریکہ سردست بلیم گیم کھیل رہا ہے۔ اسکور بورڈ کی تازہ بیانیہ سرخی یہ ہے: افغانستان میں شکست 20 سالہ غلطیوں کا مجموعی شاخسانہ؛ ابتدائیہ میں امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک اے ملی کا یہ بیان پیش کیا گیا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں 20 سال تک امریکی موجودگی کے باوجود وہاں سے پاکستان فرار ہونے کی طالبان کی قابلیت کو ایک بڑا اسٹریٹجک مسئلہ قرار دیا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی مسلح افواج کی کمیٹی میں اپنے حالیہ بیان میں امریکی فوج کے اعلیٰ عہدیداران نے بھی طالبان کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کے معاہدے کو وسط اگست میں کابل کے سقوط کا ایک اہم سبب گردانا تھا۔ جنرل مارک ملی نے ایوان بالا کے اجلاس کے دوران اپنے اظہار خیال میں یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ امریکہ کو چاہئے کہ وہ بطور پناہ گاہ پاکستان کے کردار کا بخوبی جائزہ لے۔ میونخ عالمی سلامتی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے ابھی پچھلے سال خطاب میں جرمن صدر فرینک والٹر نے عالمی امن کو تباہ کرنے کیلئے بڑی طاقتوں امریکہ، چین اور روس کو مورد الزام گردانا تھا اور کہا تھا کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں نیوکلیائی ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے، دنیا نفرتوں کی آگ جل رہی ہے۔تینوں پر عالمی معاملات میں بے جا مداخلت کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہوں نے عراق، شام اور افغانستان میں ان بڑی قوتوں کے کردار پر کڑی نکتہ چینی بھی کی اور اُن سے مطالبہ کیا کہ وہ عالمی امن میں خلل ڈالنا بند کریں۔
بلیم گیم کے تازہ ایپی سوڈ میں قبل ازیں سابق امریکی صدر ڈونیلڈ ٹرمپ اور موجودہ صدر جوزف بائیڈن بھی ایک دوسرے پر افغان رخی الزام لگا چکے ہیں۔ اول الذکر کا جہاں یہ کہنا ہے کہ: حاصلِ انخلا ہے یہ انجام۔ وہیں جواب آں غزل میں بائیڈن نے کہا کہ: تم ہو معمار راہِ عجلت کے۔ بہر حال اب تو جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا! ویسے جس عجلت کا مظاہرہ کرنے کا امریکہ پر الزام لگایا جا رہا ہے اس پر بہ انداز دیگر پاکستانی شفاخانے کے حکماء بھی معترض ہیں۔ وہ اٹھتے بیٹھتے بس یہی کہتے پھر رہے ہیں کہ ہمارے استقامت والے نسخے پر اگر امریکہ نے عمل کیا ہوتا تو انخلا میں سُرعت کی یہ شکایت پیدا نہیں ہوتی۔
قوموں کی تاریخیں یوں تو روزانہ ہی مرتب ہوتی رہتی ہیں لیکن کبھی کبھی کسی ایک باب کے مندرجات آئندہ کے ایک سے زیادہ ابواب کی ترتیب پر مثبت اور منفی دونوں طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ اب یہ مختلف النوع قاریوں پر منحصر ہے کہ وہ ان مندرجات سے کس طرح پیش آتے ہیں۔ حسبِ روایت رٹنے والے قاری جہاں حسبِ موقع واقعات کو دہراتے اور دنیا کماتے رہتے ہیں، وہیں ایسے واقعات سے علمی استفادہ کرنے والے حلقوں کا نام وقت کا مورخ نسلِِ آئندہ کے محسنوں کی فہرست میں شامل کر لیتا ہے۔ افغانستان میں یومیہ بنیاد پر اب جو واقعات مرتب ہوں گے بلکہ ہونا شروع ہو گئے ہیں وہ ایک سے زیادہ حلقوں کو حسبِ توفیق متاثر کریں گے۔
افغان سانحہ ہندستان کو جو سردست سیکولرزم اور قوم پرستی کی تشریحِ نو سے گزر رہا ہے، بہت کچھ سیکھنے کا راست موقع فراہم کرتا ہے۔ بظاہر تو دنیا کل کی طرح آج بھی ایک سے زیادہ تہذیبوں کی نمائندگی کا اسٹیج ہے لیکن گلوبلائزیشن نے بباطن اِس منظر نامے کو بھی انقلاب آشنا کیا ہے۔ یعنی اب کوئی تہذیب دنیا کے کسی ایک ملک یا خطے کی نمائندگی نہیں کرتی۔ اب ہر ملک/خطہ ایک سے زیادہ تہذیبوں کے سنگم کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ عالمی وحدت میں اس کثرت سے جن حلقوں نے بے کم و کاست اتفاق کر لیا ہے ان میں یورپی ممالک سر فہرست ہیں، جن سے رنگ اور نسل کی تفریق میں بدستور اُلجھے امریکہ کو سبق لینا چاہئے۔ دوسری طرف مغربی ایشیا میں آلِ ابراہیم نے بھی مرحلہ وار اِس تہذیبی سنگم سے اتفاق کرنا شروع کر دیاہے۔ معاہدہء ابراہیم کے ایک سال پورے ہو رہے ہیں۔ تبدیلی کے اِس موڑ سے ابھی اسرائیلی شدت پسندوں اور حماس کو گزرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ آنے والے دنوں میں اُنہیں بھی اِس نوع کی عملی مثالیں عملاً متاثر ہونے کی توفیق بخشیں گی۔
اندیشوں پر امکانات کو ترجیح دینے والے ہمیشہ آزمائشوں سے کامیاب گزرتے آئے ہیں۔ تاریخ کے سفر کا یہ نیاباب جس دن مکمل ہوگا اس کے اثرات دور دور تک مرتب ہوں گے۔ جنوبی ایشیائی ممالک جب اِس سے استفادہ کریں گے تو برصغیر بھی انشاء اللہ اس سے غیر مانوس نہیں رہے گا۔ اس رخ پرجو سب سے بڑی تبدیلی آئے گی وہ انسانی وسائل کے بابرکت استعمال اور بہبود کے رخ پررونما ہو گی۔ انسانی وسائل کے احسن فروغ میں قدرت جب بڑی طاقتوں سے کام لے گا تو ہندستان اور چین کے درمیان اشتراک کا دائرہ چین اور پاکستان کی کسی راہداری سے کہیں زیادہ گنجائشوں کا حامل ہوگا۔ دیر بس ادراک کے اُس سورج کے نمودار ہونے کی ہے جو اندیشوں کے ایک ایسے بادل کی اوٹ میں ہے جس کی دبازت فطری طور پر ختم ہو رہی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں جدید تعلیم کو امن کی کوششوں سے جوڑنے کی ایک مہم چلی ہوئی ہے۔ ہر نوع کے علم کا چونکہ بنیادی تعلق معاشرے سے ہے اس لئے ماہرین کی کوشش ہے کہ اس رُخ پر حکومتوں کو متوجہ کیا جائے اور انہیں سماجی مفادات کی اہمیت سے اس طرح روشناس کیا جائے کہ اُن کی محدود نظریاتی سوچ از خود اُن کے نزدیک مسترد کرنے کی چیز میں تبدیل ہو جائے۔ اس کوشش سے متاثر سعودی عرب کی مثال سب کے سامنے ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق حالیہ برسوں میں پرتشدد تنازعات کی بعض معاشروں نے بھاری قیمت چکائی ہے۔ عصری متشدد تنازعات پیچیدہ ہی نہیں طول بھی پکڑنے لگے ہیں۔ ان میں اکثر غیر حکومتی گروپوں اور علاقائی اور بین اقوامی کرداروں کی شمولیت سے انسانی زندگی کے تقدس کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔
جدید تعلیم کو امن کی کوششوں سے جوڑنے کی کوشش میں تیزی اُس وقت آئی جب اس سچ کا قریب سے ادراک کیا گیا کہ ذہنی پراگندگی پھیلانے میں نظریاتی درسگاہیں بھی ایک کردار ادا کرتی ہیں۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے اندر نظریاتی سوچ کی موجودگی نے تعلیم، تنازعات اور امن کو جس انداز سے عالمی خبروں کا حصہ بنا دیا ہے، اس کا نوٹس لینے کے بعد اب کئی یونیورسٹیاں امن اور تنازعات کے مطالعے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرنے لگی ہیں۔ معاشرتی عدم مساوات، نسلی تفریق اور تشدد کی ثقافت کو فروغ دینے والی درسگاہوں کے مقابلے میں یونیورسٹیوں کی جانب سے عصری مضرت رساں سماجی چیلنجوں کا موثرجواب دینے کا کردار کتنا کامیاب رہے گا یہ تو وقت بتائے گا لیکن اتنا طے ہے کہ اندیشوں پر امکانات کو ہی فتح حاصل ہو گی۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)