رواں ہفتے کے اوائل میں، افغان حکام نے پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ اس نے دارالحکومت کابل اور ملک کے مشرق میں ایک بازار پر بمباری کی ۔ پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔بہر حال دونوں ملکوں کشیدگی انتہائی عروج پر ہے اور دونوں طرف سے حملوں کی خبر ہیں پاکستان نے بھی 25افغان فوجی مارنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ طالبان حکومت کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغان افواج نے 25 پاکستانی فوجی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ہے، 58 فوجی مارے گئے ہیں، اور 30 دیگر زخمی ہوئے ہیں
مجاہد نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، ”افغانستان کی تمام سرکاری سرحدوں اور ڈی فیکٹو لائنوں پر صورتحال مکمل کنٹرول میں ہے، اور غیر قانونی سرگرمیوں کو بڑی حد تک روکا گیا ہے۔‘‘پاکستان کی جانب سے ہلاکتوں کے بارے میں فوری طور پر کوئی تصدیق نہیں ہوئی۔ طالبان حکومت کی وزارت دفاع نے اتوار کی صبح سویرے کہا کہ اس کی افواج نے سرحد کے ساتھ ”جوابی اور کامیاب کارروائیاں‘‘ کی ہیں
طورخم بارڈر کی بندش:طورخم بارڈر کراسنگ، جو دونوں ممالک کے درمیان دو اہم تجارتی راستوں میں سے ایک ہے، اتوار کو اپنے معمول کے وقت صبح آٹھ بجے نہیں کھولی گئی۔پاکستان افغان حکام پر کالعدم گروپ تحریک طالبان پاکستان کے ارکان کو پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ یہ گروپ پاکستان کے اندر خونریز حملے کرتا ہے، لیکن کابل اس الزام کی تردید کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے ہفتے کی رات کے حملے کی مذمت کی اور کہا کہ ملک کی فوج نے ”نہ صرف افغانستان کی اشتعال انگیزیوں کا منہ توڑ جواب دیا بلکہ ان کی کئی چوکیاں بھی تباہ کیں، جس سے وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔‘‘
قطر اور سعودی عرب کا اظہار تشویش
قطر کی وزارت خارجہ نے کشیدگی اور خطے کی سلامتی و استحکام کے لیے ممکنہ نتائج پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس نے دونوں فریقوں پر زور دیا کہ وہ ”مکالمت، سفارت کاری اور تحمل‘‘ کو ترجیح دیں۔سعودی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں دونوں ممالک سے ”تحمل، کشیدگی سے گریز اور مکالمے اور دانشمندی کو اپنانے‘‘ کا مطالبہ کیا تاکہ کشیدگی کو کم کرنے اور خطے کی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد ملے۔








