نئی دہلی: ورنداون کے مشہور بانکے بہاری مندر نے پہلگام حملے کے بعد مندر میں کام کرنے والے مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے کے ہندوتوا گروپوں کی کال پر کان دھرنے سے انکار کر دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق، بانکے بہاری کے پجاری اور مندر کی انتظامیہ کمیٹی کے رکن گیانیندر کشور گوسوامی نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ یہ اقدام عملی نہیں ہے اور مندر کو چلانے میں مسلمانوں کا بڑا کردار ہے۔”یہ عملی نہیں ہے،” انہوں نے اخبار کو بتایا۔ مسلمانوں خصوصاً کاریگروں اور بُنکروں نے یہاں گہرا تعاون کیا ہے۔ انہوں نے کئی دہائیوں سے بانکے بہاری کے کپڑے بُننے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس مندر میں دیوتاؤں کے لیے تاج، کپڑے اور مالا مسلمان ہی بناتے ہیں۔ مسلم کمیونٹی کے موسیقار خصوصی مواقع پر ہوا کا روایتی آلہ نفیری بجاتے ہیں۔اس سے قبل مارچ میں بھی مندر کے پجاریوں نے دیوتا کے لیے مسلمان بنکروں کی طرف سے بنائے گئے کپڑوں کی خریداری پر پابندی لگانے کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ ان کا یہ اعلان شری کرشنا جنم بھومی سنگھرش نیاس نامی گروپ کے صدر دنیش شرما کی طرف سے مندر انتظامیہ کو ایک میمورنڈم پیش کرنے کے بعد آیا۔اخباری رپورٹ میں بتایا گیا کہ متھرا اور ورنداون میں ہندوتوا گروپوں نے ہندو دکانداروں اور یاتریوں سے مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔ ان گروپوں نے مسلمان دکانداروں سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے کاروباری اداروں پر مالکان کے نام لکھیں۔
قابل ذکر ہے کہ تازہ ترین واقعہ وادی کشمیر کے پہلگام میں 22 اپریل کو ہوئے دہشت گردانہ حملے کے ردعمل میں سامنے آیا ہے۔ اس حملے میں 26 عام شہری گولی لگنے سے مارے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ دہشت گردوں نے مارنے سے پہلے متاثرین سے پوچھا کہ کیا وہ ہندو ہیں؟ ایسے میں اس واقعہ نے پہلے سے پولرائزڈ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔اس سلسلے میں مندر کے پجاری گوسوامی نے کہا کہ پہلگام کے ذمہ داروں کو سخت سزا دی جانی چاہیے اور مندر حکومت کے ساتھ ہے، لیکن ورنداون میں ہندو اور مسلمان امن اور ہم آہنگی سے رہتے ہیں۔اخبار نے نکھل اگروال کے حوالے سے بتایا ہے کہ جن کی دکان بانکے بہاری مندر کے قریب جاوید علی کی دکان کے ساتھ ہے، کہا کہ دونوں کے درمیان کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور وہ اکثر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔سورس:دی وائر