رام پور:(احتشام الحق آفاقی )
ایمان کا تعلق دِل سے ہے اور دِل پر جبر نہیں ہو سکتا کیونکہ دِل اُسی بات کو مانتا ہے جسے وہ اپنے اِختیار سے پسند کرتا ہے۔ اِس لئے اِسلام میں کسی کو جبراً مسلمان بنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ بات سرکردہ عالم دین مولانا عبد الخالق ندوی نے روزنامہ خبریں سے بات کرتے ہوئے کہی۔
مقامی امیر جماعت اسلامی ہند مولانا عبدالخالق ندوی نے کہا اِسلام کا اِعتقادی اور اَخلاقی و عملی نظام کسی پر زبردستی نہیں کرتا یہ ایسی چیز ہی نہیں جو کسی کے سر جبراً منڈھی جا ئے۔ اِسلام یہ گوارا نہیں کرتا کہ کسی کو جبراً مسلمان بنایا جائے ۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسلام میں عقیدہ کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی اعتقاد کو اپنانے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے اور کسی اعتقاد کی وجہ سے اسے نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہئے جس پر وہ یقین رکھتا ہے۔ عقیدہ کی آزادی اہم ترين انسانی حقوق ميں سے ايك ہے جس کا اسلام نے اقرار کیا ہے۔
مولانا عبد الخالق ندوی نے کہا کہ اسلام آزادی اعتقاد كو انسانی عقل و ضمیر کے لئے احترام کے اعلی درجے اور قدر کی نگاہ سے ديكھتا ہے ، خدا نے انسان کو عقل سے نوازا ہے جو حق اور باطل کے مابین فرق کرنے كے قابل ہے اور اسے ایمان اور کفر کے درمیان انتخاب کرنے کی آزادی عطا کرتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے کاموں کا خود ذمہ دار ہے اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج کا بھی وہ خود ذمہ دار ہے۔ اسلام میں مذہبی آزادی کی توثیق کا مطلب مذہبی تعدد کو تسلیم کرنا ہے۔اسلام فکر و یقین کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے بلکہ خدا نے اسے مومنوں پر ایک تکلیفی حکم کے طور پر فرض فرمایا ہے، اس نے سب سے پہلے پیغمبر کو انسانیت کے بارے میں اس نئے اصول کی تعلیم دی تاکہ اس کی ایمان پر قائم رہنے کی حرص اسے لوگوں کو زبردستی پکڑ کر انھیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کرے کیوں کہ اسلام کی دعوت رضامندی اور خوشنودی پر مبنی ہے۔
بے شک اسلامی موقف واضح اور مضبوط تھا جو ہر انسان کو آزادی دیتا ہے کہ وہ جو چاہے عقائد اپنائے اور اپنے لئے جو افکار چاہے اختیار کرے حتی کہ اگر اس کے عقائد ملحدانہ ہیں تب بھی کوئی شخص اسے نہیں روک سکتا جب تک اس کے یہ افکار و خیالات اس کی اپنی ذات کی حد تک ہوں اور وہ ان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ لیکن اگر وہ ایسے خیالات کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے جو لوگوں کے اعتقادات کے منافی اور ان کی اقدار سے متصادم ہوں تب وہ لوگوں کے دلوں میں شک کا فتنہ پیدا کرکے ملک کے عمومی نظم و ضبط پر حملہ آور ہوتا ہے اور جو بھی شخص کسی بھی قوم میں ریاست کے عمومی نظم و ضبط پہ حملہ کرتا ہے تو اسے سزا دی جائے گی جو بیشتر ممالک میں قتل ہے چنانچہ اسلامی قوانین میں مرتد کی سزا اس لئے نہیں کہ وہ مرتد ہوا ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اس نے اسلامی ریاست میں فتنہ و انتشار بپا کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسلام متشدد گروہوں کو مسترد کرتا ہے جو لوگوں کو اسلام پہ مجبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسلام نے اپنے کسی مبلغ کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ لوگوں کو فرض کی ادائیگی پر مجبور کرے اور نہ ہی دینی فرائض میں کوتاہی پہ کسی شخص کو سزا دینے کا حق ہے۔ لہذا کچھ افراد جو دینی امور میں کوتاہی کرتے ہیں انہیں بعض مذہبی لوگ شرعی قواعد و ضوابط کے مطابق نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے دائرے سے ہی خارج کر دیتے ہیں۔ مذہب ایک داخلی یقین ہے جو بیرونی دباؤ یا جبر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مذہب میں جبر اور زبردستى سے مومن نہیں بلکہ منافق پیدا ہوتے ہیں۔ مولانا نے ایک سوال کے جواب میں موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر دین کی دعوت کا کام منظم پیمانے پر کیا جاتا تو آج جو صورت حال ہے وہ قطعاً پیدا نہ ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ اسی تعلق سے ہم سب مجرم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ضرورت ہے کہ اہل وطن کو اسلام کے پیغام سے آشنا کرائیں۔