امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اپنی پہلی میعاد کے دوران ایک تاریخی جملہ کہا تھا جو کچھ یوں تھا کہ ’ایسے ممالک موجود ہیں جو ہمارے تحفظ کے بغیر ایک ہفتہ بھی نہیں چل سکتے، اور انھیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔
آنے والے دنوں میں ان کے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت خلیجی ممالک کے دورے سے قبل ایک بار پھر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹرمپ نے عوامی اور واضح انداز میں سعودی عرب سے ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے۔
ٹرمپ کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری پروگرام پر مذاکرات سمیت خطے میں ایران کی پوزیشن سیاسی اور سٹریٹیجک اعتبار سے تبدیل ہو رہی ہے۔
غادہ جابر نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ نے ایران کے خطرے کو استعمال کرتے ہوئے خطے کے ممالک کو ڈرایا ہے۔ شام، عراق، لبنان اور یمن میں ایرانی موجودگی سعودی عرب سمیت متعدد خلیجی ممالک کے لیے ایک خدشہ رہی ہے۔ایران کا جوہری پروگرام اس کے علاوہ ہے جو اسرائیل کے لیے بھی پریشانی کا سبب ہے۔ ٹرمپ نے حال ہی میں ایرانی جوہری پروگرام کے مکمل خاتمے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔
شریف عبدالحامد ایرانی سٹڈیز کے گلف سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں جن کا کہنا ہے کہ امریکہ کی ایران پالیسی خلیجی فنڈز کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کوشش کر رہے ہیں کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے سربراہان کو یقین دلائیں کہ اس کے بدلے ان کو ایرانی خطرے سے تحفظ ملے گا۔
سعوی عرب اور ایران کے تعلقات 1979 میں شاہ ایران کا تختہ الٹنے کے بعد سے تناو کا شکار رہے ہیں۔ سعودی عرب نے ایران کے خلاف جنگ میں عراق کی مدد کی تھی اور 1987 میں ایران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر ہجوم نے حملہ آور ہو کر اسے آگ لگا دی تھی۔
یمن میں ایران نے حوثیوں کی سعودی عرب کے خلاف حمایت کی اور حوثیوں کی جانب سے سعودی زمین پر تیل کی تنصیبات کو بھی میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ یہ وہ چند عوامل ہیں جنھوں نے دونوں ممالک کے درمیان بحران کو مذید گہرا کیا۔مارچ 2023 میں چینی ثالثی کی مدد سے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بہتری آئی اور چند لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ خطے میں استحکام، کشیدگی میں کمی اور دونوں ممالک کے درمیان شراکت کا آغاز ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب کی ال یمامہ فاونڈیشن کے ریجنل ڈائریکٹر زیات کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے معاہدے کو دونوں ملکوں کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کے ذریعے سمجھنا ہو گا۔
ان کے مطابق سعودی عرب مشرق اور مغرب کے درمیان توازن رکھ کر معاشی ترقی کو فرغ دینا چاہتا ہے اور ایران کو امریکی معاشی پابندیوں کی وجہ سے اندرونی مشکلات کا سامنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایران میں احتجاج کی وجہ سے بھی وہ بیرونی اختلافات کو حل کرنا چاہتا ہے۔عبدالحامد کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات حل ہونے سے تنازع ختم ہو سکتا ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل ایسا نہیں چاہیں گے کیوں کہ وہ ایران کے خطرے کو استعمال کرتے ہوئے خطے میں تناؤ کو برقرار رکھنا چاہیں گے جس سے ان کے سیاسی اور معاشی مفادات جڑے ہیں۔دوسری جانب متحدہ عرب امارات اور قطر نے ٹرمپ کے دورے سے قبل ہی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ دبئی میں ٹرمپ آرگنائزیشن نے ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اور ٹاور کی تعمیر اعلان کیا جو ایک ارب ڈالر کا منصوبہ ہے۔ قطر میں دو ارب ڈالر سے ٹرمپ انٹرنیشنل گالف کلب کے منصوبے کا اعلان ہوا ہے۔
ٹرمپ نے واضح طور پر مطالبہ کیا ہے کہ خطے کے ممالک امریکی جنگوں کا مالی بوجھ اٹھائیں۔ امریکہ نے مصر سے مطالبہ کیا کہ سویز نہر سے امریکی عسکری اور تجارتی جہازوں کو حوثیوں کو نشانہ بنانے کے بدلے مفت راستہ دیا جائے۔مصر کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا لیکن امریکی خبروں سے عندیہ ملتا ہے کہ مصری صدر نے ٹرمپ کے ساتھ فون پر ہونے والی بات چیت میں اس مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔تاہم ٹرمپ نے خلیجی ممالک کو اپنے دورے کے دوران ایک سیاسی تحفہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ تحفہ خلیج فارس کے نام کو امریکہ کی جانب سے خلیج عرب کے طور پر باقاعدہ استعمال کرنے کے بارے میں ہو گا۔تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ نے سعودی عرب کے دورے کو اپنے مطالبات کی منظوری سے منسلک کر رکھا ہے۔
ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایسے معاہدے کیے جائیں جن کے تحت سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کا پیسہ امریکی معیشت کی بحالی میں استعمال ہو اور اس کے لیے امریکی اسلحہ اور سازوسامان خریدا جائے۔زیات کا کہنا ہے کہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ معاملات میں واضح رہا ہے اور ایک معاشی شراکت داری میں بھی شامل ہے۔ ’یقینا سعودی عرب ٹرمپ کے تحفے کو نہیں ٹھکرائے گا۔‘ان کے مطابق ٹرمپ کو خلیجی ممالک کے پیسے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ امریکہ کو اپنے عالمی اتحادیوں کی مدد سے مالی فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔ٹرمپ نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ یورپ اور جاپان بھی اتحاد کی قیمت ادا کریں۔