شیکھر گپتا
اس ہفتے تین بالکل ہی مختلف لیکن سنجیدہ آوازیں سامنے آئیں۔ جنہوں نے بھارت کے تقریباً 20 کروڑ مسلمانوں کی طرف توجہ مبذول کرائی اور ساتھ ہی بتایا کہ کیسے قومی سیاست میں ان کی موجودگی غیر معنی ہوگئی ہے ۔
ہم ان تینوں میں سپریم کورٹ آف انڈیا کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ، کیونکہ ایک ادارہ کسی خاص فرد سے بالاتر ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمن اور جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس اے ایس بوپنا نے اس حقیقت پر برہمی کا اظہار کیا کہ میڈیا کا ایک طبقہ کچھ ایشوز پر اپنی کوریج کو اتنا زیادہ فرقہ وارانہ رنگ دیتا ہے کہ اس سے بھارت کا نام خراب ہو سکتاہے ۔ یہ ریماکس کورونا بحران کی پہلی لہر کے دوران تبلیغی جماعت کے حوالہ سے تھا۔ جب دہلی میں جمع ہوئے دنیا بھر کے تبلیغی جماعت کے پیروکار کو انفیکشن پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ججوں نے ایک بہت ہی اہم بات کہی لیکن پورے وقار کے ساتھ ، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مسائل اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے، کیونکہ بھارت کی بدنامی صرف اس بات سے ہی نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ بہت کچھ کہےجانے اور کئے جانے سے بھی ہوئی ہے جو ہمارے مسلمانوں سے جڑا ہے۔
دوسرے تھے ادا کار نصیر الدین شاہ ، جنہوں نے طالبان کی جیت پر ’ کچھ ہندوستانی مسلمانوں‘ کی طرف سے جشن منائے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہاکہ طالبان کی واپسی پوری دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور کسی ہندوستانی مسلمان کی طرف سے اس کا جشن منایا جانا بھی کم خطرناک نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’ میں ایک ہندوستانی مسلمان ہوں‘ اورہر ہندوستانی مسلمان کو خود سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ وہ اپنے اسلام میں بہتری اور جدت چاہتاہے یا پھر وہ صدیوں پرانی وہی۔ ’وحشی پن ‘ جو سفاکیت کی حمایت کرتا ہے ۔
انہوں نے مرزا غالب کے حوالہ سے کہاکہ ’اللہ کے ساتھ میرا بے حد بے تکلف ہے‘ ۔ انہوں نے کہاکہ بھارت کااسلام ہمیشہ سے الگ رہاہے۔ انہوں نے آواز اٹھائی، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی اور دونوں فریقوں کوسامنے رکھا۔ کئی دوسرے مسلمانوں کی رائے میں وہ بے وجہ ہی دفاعی موڈ میں نظر آئے اور سدھار کی اپیل کرکے اسلام پر بغیر سوچے سمجھے رد عمل دینے والے تنقید کاروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ہندو رائٹ ونگ ممکنہ تمام لوگوں کی رائےرہی کہ ہندوستانی اسلام کو الگ کہہ کر انہوں نے خود فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے یہ کہ تمام اسلام یکساں ہیں۔‘
تیسری آواز جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کی تھی۔ جنہوں نے بار -بار مودی حکومت سے یہ جاننا چاہا کہ کیا اسے اب بھی لگتا ہے کہ طالبان دہشت گرد ہیں یا نہیں۔ ان کایہ اقدام سیاسی جستجو کےمطابق تھا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ جاننا تھا کہ آپ امید کرتے ہیں کہ بھارت کے مسلمان طالبان کو دہشت گرد قرار دے کر ان کی تنقید کریں گے اور ان کی مذمت کریں گے ، لیکن آپ جو ہندوؤں کی آواز ہے، انہیں اب کیا مانتے ہیں؟ظاہر ہے، سرکار یا بی جے پی میں سے کوئی بھی اس کا جواب نہیں دے سکتا۔
اگر وہ’ طالبان مطلب دہشت گردی‘کی پرانی لائن کو دوہراتے رہتے ہیں تو تمام متبادل کو بند کردیں گے اور افغانستان ، ٹینک، ہیلی کاپٹر اور رائفل تمام کچھ تحفہ کے طور پر پاکستان کو دے دیں گے اور دوسرا دنیا بھر میں بھارت الگ تھلگ پڑ جائے گا۔ طالبان ہر حال میں فاتح ہی ہے ۔ دنیا اسے قبول کررہی ہے ، صرف اس لئے نہیں کہ یہ آف پاک علاقہ کا صدیوں پرانا جاگیردارانہ اصول ہے ۔
عمر عبداللہ صرف بی جے پی کو ٹرول نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ایک اہم نقطہ بھی اٹھا رہے ہیں،کیونکہ اترپردیش میں آئندہ انتخابات کے درمیان زمینی سطح پر سیاسی گفتگو میں اسلام کا مطلب- دہشت گرد – مطلب – آئی ایس آئی ایس – مطلب لشکر؍ جیش – طالبان کی لائن وسیع پیمانہ پر عام ہو رہی ہے ۔
ہم نے کالم کا آغاز سپریم کورٹ کا حوالہ دے کر کیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمن نے حال ہی میں ایک نہایت دانشمندانہ نکتہ بھی پیش کیا کہ عدلیہ کو نہ صرف ہندوستان کے تنوع کے لیے اپنی آواز بلند کرنی چاہیے بلکہ اس کی نمائندگی بھی کرنی چاہیے۔ درحقیقت ، وہ چاہتے تھے کہ کالجیم ججوں کے انتخاب کے لیے اس کے انتخاب میں اس کی عکاسی کرے، لیکن کیا ہوا ، سپریم کورٹ کالجیم نے نو نئے ججوں کا نام دیا ، جن میں تین خواتین ، او بی سی اور دلت شامل ہیں، لیکن کوئی بھی مسلمان نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے 33 ججوں میں صرف ایک مسلمان جج ہے۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کس سیاسی زاویے میں ہیں ، صرف ایک منٹ کے لیے ایک عام محب وطن ہندوستانی کی طرح پورے منظر نامے کو دیکھیں۔ ہندوستان 20 کروڑ ہم وطنوں کو الگ تھلگ چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تب بھی نہیں جب طالبان کا عروج نہ ہوا ہوتا اور انہیں عالمی قبولیت نہ مل رہی ہوتی۔
(بشکریہ : دی پرنٹ)
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)