کئی ماہ تک بیان بازی کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش کی جانب سے حال ہی میں ایک دوسرے کے خلاف تجارتی پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن کی وجہ سے دونوں ممالک میں بڑے پیمانے پر کاروبار متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوا ہے۔
گذشتہ ماہ بنگلہ دیش نے بھارت سے سوتی دھاگے کی زمینی راستے سے درآمد محدود کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ مقامی صنعتوں کو غیر ملکی سستی مصنوعات کے اثرات سے تحفظ دیا جا سکے۔ڈھاکہ کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں لیا گیا جب انڈٰیا نے اچانک بنگلہ دیش کو فراہم کردہ وہ سہولت ختم کرنے کا اعلان کیا جس کے تحت بنگلہ دیشی مصنوعات بھارت کی بندرگاہوں اور ایئر پورٹس کے راستے بیرون ملک برآمد کی جاتی تھیں۔
واضح رہے کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات اگست 2024 میں بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی تناو کا شکار ہیں۔ شیخ حسینہ اقتدار سے معزولی کے بعد سے بھارت میں موجود ہیں اور بنگلہ دیش میں نوبل انعام یافتہ محمد یونس عبوری حکومت کی سربراہی کر رہے ہیں۔بنگلہ دیش نے بھارت سے شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کا بھی بارہا مطالبہ کیا ہے تاکہ اُن کے خلاف بنگلہ دیش میں زیر التوار عدالتی کارروائیاں مکمل کی جا سکیں۔ شیخ حسینہ پر منی لانڈرنگ اور کرپشن کے ساتھ ساتھ سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ حسینہ واجد ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہیں جبکہ انڈیا نے ان کی حوالگی کے بنگلہ دیش کے مطالبے کا کبھی باضابطہ جواب نہیں دیا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی اور تناؤ کی وجہ سے کاروباری کمپنیاں نقصان اٹھا رہی ہیں۔ سوتی دھاگہ بنگلہ دیش میں کپڑوں کی صنعت کے لیے ناگزیر خام مال ہے جو اب بھی سمندری اور ہوائی راستوں سے بھارت سے بنگلہ دیش لایا جاتا ہے
دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی اور تناؤ کی وجہ سے کاروباری کمپنیاں نقصان اٹھا رہی ہیں۔ سوتی دھاگہ بنگلہ دیش میں کپڑوں کی صنعت کے لیے ناگزیر خام مال ہے جو اب بھی سمندری اور ہوائی راستوں سے انڈیا سے بنگلہ دیش لایا جاتا ہے۔سنہ 2024 میں انڈیا نے 1.6 ارب ڈالر کا سوتی دھاگہ بنگلہ دیش کو برآمد کیا تھا۔ ماضی میں انڈیا کی جانب سے بنگلہ دیش کے ایکسپورٹرز کو یہ سہولت دی جاتی تھی کہ وہ بڑے برینڈز کے لیے تیار کردہ کپڑے سڑک کے راستے انڈیا کے شہروں میں بھجوا دیا کرتے تھے جہاں سے انھیں یورپ اور امریکہ روانہ کر دیا جاتا تھا۔بھارت کی جانب سے اس فیصلے کی وجہ اپنے ایئرپورٹس اور بندرگاہوں پر سامانِ تجارت کا بڑھتا رش بتایا گیا ہے
رہے کہ چین کے بعد بنگلہ دیش دنیا میں کپڑے برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے جس نے صرف گذشتہ سال میں 38 ارب ڈالر کی کپڑوں کی مصنوعات برآمد کی تھیں۔بنگلہ دیشی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ مزید تجارتی رکاوٹیں نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ڈھاکہ میں ’سینٹر فار پالیسی ڈائیلاگ‘ کے سینیئر ماہر اقتصادیات دیبپریا بھاٹچاریہ کہتے ہیں کہ ’آج کل بنگلہ دیش میں ایک رائے یہ ہے کہ ہمیں شیخ حسینہ حکومت کی طرف سے انڈیا کو دی گئی ٹرانزٹ اور ترسیل کی سہولیات کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔‘ بی بی سی کے تجزیہ نگارانبراسن ایتھیراجن کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی بھارت کے ساتھ کشیدگی ایسے وقت میں بڑھ رہی ہے جہاں دوسری طرف بنگلہ دیش کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔دونوں ملکوں کی جانب سے شدید سرکاری ردعمل بھارت اور بنگلہ دیش میں رائے عامہ کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں بھارت مخالف جذبات بڑھتے جا رہے ہیں کیونکہ بھارتی میڈیا پر بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملے اور اسلام پسند خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام لگتا رہتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان برسوں سے بنائے گئے تعلقات متاثر ہو رہے ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق اگر فریقین پرامن رہنے میں ناکام ہوئے تو ان کے اقدامات تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔