تحریر: قاسم سید
مقبولیت کی ہر بلندی چھو لینے والا،کروڑوں دلوں کی دھڑکن،جغرافیائی حدوں سے بے نیاز،فلمی دنیا پر بادشاہت کرنے والا،بے پناہ دولت کا مختارشاہ رخ خان جس کو لوگ کنگ خان کہہ کر پکارتے ہیں اور ایک جھلک پانے کے لیے جان تک کی پروا نہیں کرتے مگر یہ تمام باتیں اسے اپنے جگر کے ٹکڑے کو جیل سے باہر لانے میں مددگار نہیں بن سکیں،اس کی بیوی ہندو ہے ،بچوں کے ناموں سے ان کے مذہب کی شناخت مشکل ہے،یہ مجاہد آزادی کے خاندان کا فرد ہے، تقسیم کے وقت خاندان نے پاکستان کی بجائے ہندوستان میں رہنا پسند کیا۔یہ شاندار پروفائل اس کے کام نہیں آرہا ، ایک بے بس ،لاچار باپ جس کو سیاست کی نیرنگیوں نے گھٹنوں پر لگادیا ،اپنے باپ کے دیے نام کے علاوہ مسلمان کی حیثیت سے کوئی شناخت نہیں پھر بھی ملک کے بدلتے سیا سی بیانیہ میں اس کا نام بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ خانوں کی بادشاہت یا دبدبہ آنکھوں میں کھٹکتا ہے، جبکہ اس مثلث کا اسلام یا مسلمان سے دور دور تک کا واسطہ نہیں پھر بھی ماں باپ کا دیا نام ان کی الگ پہچان بناتا ہے۔ اب یہ بھی ان کا قصور ہے ان کے مد مقابل جس کو بھی کھڑا کیا جاتا ہے وہ عوام کی نظروں میں جچتا ہی نہیں۔
اس کا صاف مطلب ہے کہ ڈی این اے ایک ہونے کے دعویٰ کے باوجود پورو ج یکساں ہونے کے باوجود کنگ خان جیسا پیدائشی مسلمان بھی برداشت نہیں ہوسکتا ۔نفرت کی سرکاری حوصلہ افزائی اجنبیت و دشمنی کی لکیروں کو گہرا کررہی ہے۔ جن دنوں ہم سوشل میڈیا پر عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس کے جواز اور عدم جواز میں الجھ کر ایک دوسرے کے گریباں پھاڑ رہے تھے ۔مسلمانوں کے خلاف آرین کی آڑ میں طوفان برپا تھا۔پاکستان کے خلاف ہارکے بعد محمدشامی کو غدار ی کا ایوارڈ اسی سیاسی بیانیہ کا ایکسٹینشن ہے۔ شاہ رخ اپنی تمام تر طاقت کے باوجود بے بسی کی تصویر بنادیا گیا ہے، یہ قوتیں جو اب مٹھی بھر نہیں ہے ہر بااثر مسلمان کو خواہ وہ نام کا ہو یا سچا اس کی فوٹو کاپی بنا دینا چاہتی ہیں، خواہ اس کا تعلق کسی طبقہ سے ہو ،اسٹوڈنٹ جیسے عمر خالد۔عالم دین مثلاً مولانا کلیم صدیقی۔خاتون مثلاً گلفشاں۔ صحافی مثلاً صدیق کپن۔ اسکالرمثلاً ذاکر نایک۔ سیاستداں مثلاً اعظم خاں۔
آنکھیں کھولیں ،فروعی اختلافات کی بھول بھلیوں سے باہر آئیں ،وقت کے بدلتے تیورروں کوپہچانیں،خوش فہمیوں کے گرداب سے نکلیں اور حقائق کا سامنا کرنے، اس کا جمہوری انداز سے موجودہ تقاضوں کے ساتھ مقابلہ ہی میں عافیت ہے ورنہ گھر کسی کا نہیں بچے گا کیونکہ ہوا کسی کی دوست نہیں ہوتی۔