نئی دہلی: آسام کے وزیر اعلی ہمانتا بسوا سرما نے کہا کہ ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی طرف سے متعارف کرائے جانے والے "لو جہاد” کے خلاف مجوزہ قانون میں مرد ملزم کے والدین کو گرفتار کرنے کا انتظام شامل ہوگا۔
ہندوستان ٹائمز( Hindusthan times) کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس ہفتے کے شروع میں کابینہ کی میٹنگ کے بعد، سرما نے کہا کہ کئی اہم بل بشمول انسداد تعدد ازدواج اور ‘لو جہاد’ سے متعلق قانون، آسام اسمبلی کے اگلے اجلاس میں پیش کیے جائیں گے۔
اس سے قبل جمعہ کو انہوں نے کہا تھا کہ "ہم اپنی خواتین کو اس جال سے بچانا چاہتے ہیں جہاں وہ لو جہاد اور تعدد ازدواج کا شکار ہو جاتی ہیں، ہم سخت قوانین لا رہے ہیں، اور لو جہاد کے معاملات میں، مرد ملزم کے والدین کو بھی نئے قانون کے تحت گرفتار کیا جاسکے گا”۔آسام میں سرما کی قیادت والی بی جے پی حکومت اسمبلی کے اگلے اجلاس میں کئی اہم بل پیش کرے گی، جن میں تعدد ازدواج کے خلاف اقدامات اور "لو جہاد” سے متعلق قانون شامل ہے۔
تعدد ازدواج کے مجوزہ قانون کے بارے میں بات کرتے ہوئے سی ایم نے کہا کہ بہت سے مرد ایک سے زیادہ شادی کر کے خواتین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘نئے قانون کے تحت اگر کوئی مرد ایک سے زیادہ خواتین سے شادی کرتا ہے تو اسے سات سال تک قید ہو سکتی ہے’۔سرما نے یہ تبصرہ ضلع کاچھر میں خواتین کو بااختیار بنانے کی اسکیم کے لیے چیک تقسیم کرنے کی تقریب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو خواتین تین سے زیادہ بچوں کو جنم دیتی ہیں وہ ایسی سرکاری اسکیموں کے لیے اہل نہیں ہوں گی۔سی ایم ہمنتا کے مطابق، "کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خدا انہیں بچے دیتا ہے، اس لیے وہ جنم دینا نہیں روک سکتے۔ میں کہتا ہوں، جتنے بچے چاہو پیدا کرو، لیکن ان کی پرورش یا سرکاری اسکولوں میں بھیجنے کے لیے حکومت سے مدد کی امید نہ رکھیں۔”یہ بات قابل ذکر ہے کہ نام نہاد "لو جہاد” کی اصطلاح ہندوتوا گروپوں نے وضع کی تھی، جس کا مقصد، ان کے مطابق، ہندو لڑکیوں کو مسلم برادریوں میں شادی کرنے سے روکنا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ مسلمان نوجوان ایک سازش کے تحت ہندو لڑکیوں سے شادی کر کے انہیں اسلام قبول کرا رہے ہیں اور یہ غیر ملکی فنڈنگ سے چل رہا ہے۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس طرح کی زبردستی تبدیلی مذہب کر کے مسلمان اس ملک میں ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
"لو جہاد” کی اصطلاح سب سے پہلے سناتن پربھات اور ہندو جن جاگرتی سمیتی نے 2009 میں ایک سازشی تھیوری کے طور پر استعمال کی تھی، اور بعد میں اسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور وشو ہندو پریشد نے اپنایا تھا۔ 2014 کے بعد، یہ مختلف ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومتوں کا مرکزی ایجنڈا بن گیا۔ اب تک، گجرات، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، اور ہریانہ ان بڑی ریاستوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس مسئلے پر قانون بنائے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، "ایک کمیونٹی ‘لو جہاد’ جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے ہماری زمین پر قبضہ کرنے اور ہماری بہنوں کو چھیننے کی کوشش کر رہی ہے۔ میدھا پاٹکر جیسے لوگ اسے نہیں دیکھیں گے۔ اگر وہ بے دخلی کے خلاف احتجاج کرنے آتی ہیں تو ہم سخت کارروائی کریں گے۔”








