تحریر: شکیل اختر
بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کے موری گاؤں کے عبدالقادر بنگالی نسل کے لاکھوں باشندوں کی طرح کئی نسلوں سے ریاست میں آباد ہیں۔ ان کے پاس سنہ 1941 سے اب تک کے سبھی دستاویزات موجود ہیں لیکن انھیں غیرملکی یعنی بنگلہ دیشی قرار دیا گيا ہے۔ انھیں فارنرز ٹرابیونل میں اب ثابت کرنا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی نہیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں:’ہمارا جنم یہیں ہوا۔ ہم نے سارا ریکارڈ جمع کیا ہے۔ سنہ 1941 سے اب تک کا۔ میں نے سنہ 1950 کا حج کا پاسپورٹ بھی دیا ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے فارنر ڈکلیئر کر دیا۔‘
اسی ریاست میں گوالپاڑہ کی مرجینا بی بی ہندوستانی شہری ہیں لیکن پولیس نے انھیں ایک دن بنگلہ دیشی بتا کر گرفتار کر لیا۔ وہ آٹھ ماہ تک حراستی مرکز میں رہ کر آئی ہیں۔ مرجینا کہتی ہیں:’میرے چچا نے سارے کاغذات دکھائے، سارے ثبوت پیش کیے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں بنگلہ دیشی ہوں۔ جیل میں میرے جیسی ہزاروں عورتیں قید ہیں۔‘ مرجینا ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد جیل سے رہا ہوئی ہیں۔
آسام میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 34 فیصد ہے۔ ان میں اکثریت بنگالی نسل کے مسلمانوں کی ہے جو گزشتہ 100 برس کے دوران یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ یہ لوگ بیشتر غریب، ان پڑھ اور زرعی مزدور ہیں۔
ملک میں سرگرم ہندو تنظیم آر ایس ایس، برسر اقتدار جماعت بی جے پی اور اس کی ہمنوا مقامی جماعتوں کا کہنا ہے کہ آسام میں لاکھوں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن آ کر بس گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے گزشتہ دو عشرے سے ووٹر لسٹ میں ان لوگوں کو ’ڈی ووٹر‘ مشکوک شہری لکھنا شروع کیا ہے جو شہریت کے دستاویزات یا ثبوت پیش نہیں کر سکے۔
غیر قانونی بنگلہ دیشی باشندوں کی شناخت کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں آسام کے سبھی شہریوں کی ایک فہرست تیار کی جا رہی ہے۔
’نیشنل رجسٹر فار سٹیزنز‘ یعنی این آر سی کی حتمی فہرست جون میں جاری کی جائے گی۔ این آرسی کے سربراہ پرتیک ہجیلا نے بتایا کہ شہریوں کی اس فہرست میں ان لوگوں کو شامل نہیں کیا جائے گا جنھیں ڈی ووٹر یا غیر ملکی قرار دیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سبھی شہریوں کی ’فیملی ٹری‘کی جانچ ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ 29 لاکھ خواتین نے پنچایت سرٹیفکیٹ دی ہیں اور ان کی بھی گہرائی سے چھان بین ہو رہی ہے۔
این آرسی کے سربراہ پرتیک ہجیلا نے بتایا کہ اس فہرست میں ان لوگوں کو شامل نہیں کیا جائے گا جنھیں ڈی ووٹر یا غری ملکی قرار دیا گیا ہے۔ پرتیک کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں شہریت اور قومیت سے کتنے لوگ باہر ہو جائیں گے یہ بتانا مشکل ہے۔
‘یہ عمل ایک امتحان کی طرح ہے۔ اس کا پہلے سے نتیجہ بتانا مناسب نہیں ہے۔ یہ میں ضرور بتا سکتا ہوں کہ اس عمل کے بعد جو بھی تعداد سامنے آئے گي وہ قطعی اور درست ہوگی۔
سول سوسائٹی اور حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شہریوں کی حتمی فہرست آنے کے بعد لاکھوں بنگالی مسلم بے وطن ہو سکتے ہیں۔
جسٹس فارم کے عبدالباطن کھنڈکار کہتے ہیں: ’ڈی ووٹرز اور ڈکلیئرڈ فارینرز کی تعداد تقریباً پانچ لاکھ ہے۔ اور ان کے بچوں کی تعداد 15 لاکھ ہوگی۔ یہ سبھی فہرست میں شامل نہیں ہوں گے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ کم از کم 20 لاکھ بنگالی نسل کے باشندے شہریت اور قومیت سے محروم ہو جائيں گے۔‘
شہریت سے محروم کیے جانے والوں کو ملک سے نکالنا ممکن نہیں ہوگا۔ انھیں بنگلہ دیش بھیجنے کے لیے پہلے ان کی قومیت کی شناخت طے کرنی ہوگی۔
دوئم یہ کہ بنگلہ دیش سے اس قسم کا کوئی معاہدہ بھی نہیں ہے۔ یہ ثابت کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا کہ یہ بے وطن ہونے والے باشندے بنگلہ دیشی شہری ہیں۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ صورت حال ہے۔
آسام کی صورت حال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار نیلم دتا کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر مشکلات پیدا ہوں گی لیکن اگر کسی شہری کو غیر ملکی قرار دیا جائے تو اس کے لیے قانونی راستہ بچا ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’آسام میں بنگلہ دیشیوں کے آباد ہونے کا سوال ایک سیاسی سوال ہے۔ اسے بی جے پی آئندہ پارلیمانی انتخابات میں اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرے گی۔‘
حکومت نے ممکنہ طور پر بے وطن ہونے والوں کو حراست میں رکھنے کے لیے حراستی کیمپ بنانے کی غرض سے بعض مقامات پر زمینیں حاصل کی ہیں۔ ریاست میں جورہٹ، ڈبروگڑھ، گوالپاڑہ، سلچر، تیج پور، اور کوکراجھار کی جیلوں میں پہلے ہی حراستی کیمپ بنے ہوئے ہیں۔
گذشتہ مہینے شہریوں کی پہلی فہرست جاری ہوئی تھی۔ کچھار ضلعے کے حنیف خان نے فہرست آنے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔ انھیں اندیشہ تھا کہ اگر ان کا نام اس میں نہیں آیا تو انھیں گرفتار کرکے بنگلہ دیش ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔ اس فہرست میں ان کا نام نہیں تھا۔
بی جے پی کے ریاستی صدر رنجیت داس کہتے ہیں کہ شاید انسانی بنیادوں پر حکومت ہند انھیں رہنے دے
شہریوں کی فہرست کی تیاری کے لیے پوری ریاست میں ہر جگہ دستاویزات کی چھان بین جاری ہے۔ حکمراں بی جے پی کو یہ اندازہ ہے کہ شہریت سے باہر ہونے والوں کی تعداد خاصی بڑی ہو سکتی ہے۔ لیکن ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا اس کے بارے میں صورت حال واضح نہیں ہے۔
بی جے پی کے ریاستی صدر رنجیت داس کہتے ہیں:’ان لوگوں کا نام ووٹر لسٹ سے باہر ہو جائے گا۔ انسانی بنیادوں پر حکومت ہند انھیں رہنے دے گی۔ شاید ان کا ووٹنگ کا حق ختم ہو جائے گا۔ ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ کچھ تو راستہ نکالنا ہوگا۔‘
ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس کے رہنما ترون گگوئی نے ہی شہریت کا قومی رجسٹر بنانے کی ابتدا کی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ ریاست میں غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کا سوال محض سیاسی نعرہ ہے۔ کانکریس کے رہنما اور آسام کے سابق وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی کے زمانے میں اس فہرست کی تیاری کی ابتدا ہوئی تھی۔
انھوں نے کہا:’بی جے پی تین سال سے اقتدار میں ہے۔ کتنے بنگلہ دیشی اس نے پکڑے؟ میرا خیال ہے کہ این آر سی کی فہرست میں زیادہ لوگ باہر نہیں ہوں گے۔ اگر زبردستی کسی کو غیر ملکی قرار دیا گیا تو ہم لوگ مزاحمت کریں گے۔ یہ جمہوریت ہے۔ یہاں قانون کی بالادستی ہے۔‘
پورے آسام میں بنگالی مسلمان شدید بے یقینی کی گرفت میں ہیں۔ شہریت کی دوسری اور آخری فہرست جون کے اواخر میں آنے والی ہے۔ آسام کے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت اور قومیت کا مستقبل اسی فہرست پر منحصر ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، بشکریہ : بی بی سی )