ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اتار چڑھاؤ والے تعلقات کے درمیان شیخ حسینہ کے حوالے سے سب سے اہم مسئلہ باقی ہے۔ وہ گزشتہ سال 5 اگست کو بنگلہ دیش سے ہندوستان آئی تھیں اور تب سے یہیں ہیں۔
شیخ حسینہ بھارت میں قیام کے دوران مسلسل بیانات دے رہی ہیں جس پر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اعتراض ظاہر کیا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے ہندوستان سے مطالبہ کیا ہے کہ شیخ حسینہ کو ان کے حوالے کیا جائے۔تاہم اب ایک نئے بیان کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک اور لفظی جنگ چھڑ جائے گی۔
شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت اور اس کے چیف ایڈوائزر محمد یونس پر سخت تبصرہ کیا ہے جس کی وجہ سے عبوری حکومت کو بھی بیان جاری کرنا پڑا۔تبصرے میں شیخ حسینہ نے محمد یونس کو ایک ‘لٹیرا’، ‘دہشت گردوں کو چھوٹ ‘ اور ‘انتشار کو فروغ دینے والا’ قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ میں واپس آؤں گی اور سب کے لیے انصاف کو یقینی بناؤں گی ـ شیخ حسینہ کے ان تبصروں کے بعد بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کے پریس سیکرٹری شفیق العالم نے بیان دیا ہے۔بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ شیخ حسینہ کو ہندوستان سے واپس لانا اس کی ترجیح ہے۔منگل کو شفیق العالم نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ ڈھاکہ حسینہ کی حوالگی کے لیے کوششیں جاری رکھے گا تاکہ ان کے خلاف قانونی مقدمہ چلایا جا سکے۔ اس کے علاوہ شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ کو بھی بنگلہ دیش میں بحران کا سامنا ہے۔ عالم نے کہا ہے کہ یہ بنگلہ دیش کے عوام اور سیاسی جماعتوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ آیا پارٹی کو ملک کے سیاسی منظر نامے میں رہنا چاہیے یا نہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ مبینہ طور پر قتل، گمشدگی اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں انہیں قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بنگلہ دیش سے شیخ حسینہ کے حوالے سے اس طرح کا بیان آیا ہو۔ حال ہی میں مسقط میں بحر ہند کانفرنس کے موقع پر بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کے مشیر توحید حسین نے انگریزی اخبار دی ہندو سے بات کی۔
اس دوران انہوں نے کہا تھا کہ ان (حسینہ) کے خلاف مقدمات ہیں اور بھارت سے انہیں بھیجنے کو کہا گیا ہے تاکہ وہ قانونی مقدمات کا سامنا کریں جب بھارتی حکومت ایسا نہیں کرے گی تو ہم امید کرتے ہیں کہ ان پر کچھ پابندیاں عائد ہوں گی تاکہ وہ اشتعال انگیز اور جھوٹے بیانات نہ دیں جس سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ گزشتہ 15 سال سے اقتدار میں تھیں اور لوگ ان کے اقدامات سے ناراض ہیں، وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ (حسینہ) بنگلہ دیش کے حالات کو غیر مستحکم نہ کریں۔’