غلام مصطفی ٰنعیمی
دہلی ہندوستان کا تو چاندنی چوک دلّی کا دل کہلاتا ہے۔اسی چاندنی چوک میں سرراہ ایک درخت کی جڑ میں کئی سال پہلے ایک مندر بنا لیا گیا تھا۔جو ہر گزرتے دن بڑا ہوتا گیا یہاں تک کہ اس کی عمارت اور زائرین کی کثرت کی وجہ سے آمد ورفت متاثر ہونے لگی اور سڑک پر دوڑتا ہوا ٹریفک کچھوے کی طرح رینگنے لگا۔
دہلی حکومت نے چاندنی چوک کی تعمیر نو اور تزئین کاری کا کام شروع کیا تو یہی مندر راستے کی رکاوٹ بن گیا،معاملہ ہائی کورٹ پہنچا جہاں مندر کی ملکیت ثابت نہ ہوسکی اور ہائی کورٹ نے مندر منہدم کرنے کا حکم جاری کردیا۔تین جنوری 2021 کی رات میں میونسپل کارپوریشن آف دہلی (ایم سی ڈی) کے عملے نے مندر منہدم کرکے راستہ صاف کردیا،یہاں یہ بھی واضح رہے کہ دہلی میونسپلٹی میں بی جے پی بر سر اقتدار ہے۔
صبح جب لوگ بیدار ہوئے تو مندر کا نام ونشان تک موجود نہیں تھا۔جیسے ہی عوام کو مندر انہدام کی خبر ملی تو بی جے پی اور عام آدمی پارٹی نے مندر انہدام کے لیے ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کردی۔ خیر اسی رسہ کشی میں تقریباً ڈیڑھ مہینہ گزر گیا۔ اٹھارہ فروری کی رات میں نامعلوم افراد نے اسٹیل کا بنا ہوا مندر اسی جگہ کھڑا کردیا۔ صبح جب لوگ بیدار ہوئے تو مندر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ آج تک وہ مندر ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اور بغیر کسی اجازت کے وہیں کھڑا ہوا ہے۔
’تازہ معاملہ اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی سے سامنے آیا جہاں رام سنیہی گھاٹ تحصیل کمپاؤنڈ میں بنی ہوئی سو سالہ قدیم غریب نواز مسجد کو 17 مئی کی رات میں شہید کردیا گیا۔یہ مسجد قریب سو سال پرانی ہے۔اس مسجد کے ٹھیک پیچھے تحصیل کمپاؤنڈ تھا جس کی بنا پر عوامی طور پر اسے ’تحصیل والی مسجد‘ کہا جاتا تھا۔بعد میں تحصیل کا نیا کمپاؤنڈ مسجد کے آگے بنا اس طرح مسجد نئے کمپاؤنڈ کے سامنے آگئی۔وہاں کے رہائشی عدنان کا کہنا ہے نیا تحصیل کمپاؤنڈ مسجد کے بہت بعد بنا ہے۔تحصیل کمپاؤنڈ 1992 میں تعمیر ہوا جبکہ مسجد بیسویں صدی سے یہاں قائم تھی۔
1968 میں اس مسجد کا سنی وقف بورڈ میں اندراج ہوا۔اپنے قیام سے لیکر اب تک مسجد کی ملکیت کو لیکر کبھی کوئی تنازع نہیں ہوا۔ہاں اِسی سال مارچ میں جمعہ کی نماز کی وجہ سے کچھ افسران کی گاڑیاں جام میں پھنس گئیں تھیں بس اسی غصے کی وجہ سے افسران نے مسجد کو غیر قانونی بتاتے ہوئے اسے گرانے کا نوٹس جاری کردیا۔
اس من مانے نوٹس کے خلاف لوگوں نے احتجاج کیا جس کی پاداش میں پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور کئی لوگوں کی گرفتاری بھی ہوئی۔انتظامیہ کے نوٹس کے خلاف مسجد کمیٹی نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں کورٹ نے 18 مارچ کو شنوائی کرتے ہوئے پندرہ دن کے اندر ملکیت کی دستاویز جمع کرنے کا حکم دیا۔مسجد کمیٹی نے یکم اپریل کو اپنا جواب داخل کرتے ہوئے دستاویزات جمع کر دئے گئے۔ابھی معاملہ ہائی کورٹ میں زیر غور تھا کہ 17 مئی کی رات میں انتظامیہ نے بغیر کسی اطلاع کے مسجد کو شہید کردیا، حالانکہ مسجد کے انہدام پر ہائی کورٹ نے اسٹے آرڈر دیا ہوا تھا۔
ذرا غور کریں!

🔹چاندنی چوک کا مندر سرِ راہ بنا ہوا تھا۔
🔹ملکیت کا کوئی دستاویز نہیں تھا۔
🔹 اس کی تعمیر غیر قانونی ثابت ہوئی۔
🔹ہائی کورٹ نے ہی انہدام کا حکم دیا۔
🔹دہلی میونسپلٹی اور دہلی حکومت کی مشترکہ پیروی سے مندر منہدم کیا گیا۔
اس کے باوجود کچھ نامعلوم افراد نے ہائی کورٹ کے خلاف، میونسپلٹی اور دہلی حکومت کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے اسٹیل ڈھانچے کا مندر بنا کر لگا دیا ، مگر حکومت وانتظامیہ اب تک خاموشی سے سارا تماشا دیکھ رہے ہیں۔جب کہ

🔹 بارہ بنکی میں مسجد کے مالکانہ دستاویز ہائی کورٹ میں جمع کیے جاچکے تھے۔
🔹 وقف بورڈ میں مسجد کا اندراج 1968 سے ہے۔
🔹 معاملہ ابھی تک زیر شنوائی تھا۔
🔹 ہائی کورٹ نے انہدام کا حکم بھی نہیں دیا تھا۔
🔹 کووڈ کی وجہ سے مسجد کے انہدام پر اسٹے آرڈر دیا ہوا تھا۔
مگر اس کے باوجود انتظامیہ نے مسجد کو شہید کر ڈالا۔ایک طرف دہلی میں ہائی کورٹ اور حکومت کی ناک کے نیچے زبردستی اور غیر قانونی طریقے پر اسٹیل کا مندر بنا کر نصب کردیا جاتا ہے، جبکہ یوپی میں ہائی کورٹ کے اسٹے آرڈر کے باوجود مسجد شہید کردی گئی۔ ایک ہی ملک میں انتظامیہ کے دو مختلف چہرے کیا اس بات کی چیخ چیخ کر گواہی نہیں دیتے کہ فیصلے مذہب دیکھ کر کیے جارہے ہیں۔
مسجد کی شہادت پر سنی وقف بورڈ کے چیئرمن نے سخت اعتراض جتاتے ہوئے ہائی کورٹ میں جانے کی بات کہی ہے۔اس سلسلے میں چیئرمین صاحب پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ بالآخر وہ ایک حکومتی ادارے کے حکومت کے ذریعے بنائے گئے چیئرمین ہیں۔ بابری مسجد پر آنجناب کا کردار بھی سب کے سامنے ہے اس لیے مسجد کمیٹی کو چاہیے کہ جو بھی قانونی اقدامات کرے خود کرے، وقف بورڈ کے سہارے نہ رہے۔اس سلسلے میں قاضی بارہ بنکی مولانا عبدالمصطفیٰ حشمتی صدیقی اور جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی شریف کے نائب صدر سلمان حسن خان نے خاصی فعالیت دکھائی ہے۔امید کرتے ہیں کہ یہ فعالیت برقرار رہی تو شاید مسجد کا مقدمہ زیادہ مضبوطی سے لڑا جاسکے گا۔