تحریر: روی کانت
6 ستمبر کو گلوبل اسٹریٹجک پالیسی فاؤنڈیشن ، پونے کے زیر اہتمام ایک تقریب میں موہن بھاگوت نے کہا کہ’ ‘اسلام حملہ آوروں کے ساتھ بھارت آیا، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور اسے اسی طرح بتایا جانا ضروری ہے ۔‘
اس بیان کا مطلب کیا ہے؟ کیا بھاگوت کا بیان حقیقت میں درست ہے؟ اگر حملہ آوروں کے ساتھ اسلام کی بھارت میں آمد ہوئی ہے ، تو بھی اس تاریخ کو بتایا جانا کیوں ضروری ہے؟
آخر مسلمانوں کے حملے کو کیوں بار بار یاد دلایا جاتاہے؟ اول تو حملہ آوروںکے ساتھ اسلام کی آمدحقیقت میں غلط ہے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ حملہ آورمسلمان سرداروں نے مقامی بادشاہوں کو شکست دے کراپنا اقتدار قائم کیا۔ یہ ٹھیک ویسے ہی ہے جیسے آریوں نے بھارت کے اصل باشندوں کو شکست دے کر اقتدار اور ثقافت قائم کی۔
اس لئے آر ایس ایس – بی جے پی اور دیگر ہندو وادی تنظیم دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمانوں سے جڑے کسی بھی انتہا پسندی یا دہشت گردی کےواقعہ کو بھارتیہ مسلمانوں سےجوڑے بغیر نہیں رہتے۔
دراصل ، آر ایس ایس-بی جے پی کا نظریاتی وجود مسلم فوبیا پر منحصر ہے۔ کبھی کبھی یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ اگر ہندوستان میں مسلمان نہ ہوتے تو بی جے پی-آر ایس ایس جیسی تنظیمیں کس کی مدد سے اپنی سیاست چمکاتی!
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دائیں بازو کا ہندوتوا کا یہ خیال کتنا درست ہے کہ مسلمان حملہ آور بن کر ہندوستان پہنچے؟ بے شک ، یہ خیال ہندوستانی تاریخ نگاری کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ تاریخ سازی بطور جدید نظم و ضبط (موضوع) نوآبادیاتی ہندوستان میں شروع ہوئی ۔ جے ایس مل سیرکھے تاریخ دانوں نے یورپی پیٹرن کی بنیاد ہندوستانی تاریخ کو تین حصوں قدیم ،قرون وسطی اور جدید میں تقسیم کیا۔
جے ایس مل نے قدیم دور کو ہندو دور اور قرون وسطی کے دور کو مسلم دور کہا، لیکن اس نے جدید دور کو عیسائی دور نہیں کہا ، جبکہ اس نے حکمرانی مذہب کو وقت کی تقسیم کی بنیاد بنایا تھا۔ درحقیقت یورپی تاریخ میں قرون وسطی کا دور مذہبی اندھے پن کا دور ہے۔ راجا کہ اوپر چرچ کی اقتدار قائم کی تھی ۔عیسائی مذہب کے ضابطہ اخلاق سے حکمرانی اور معاشرہ چلتا تھا ۔
اس نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان کا قرون وسطی کا دور بھی مذہبی انتہا پسندی کا دور تصور کیا جائے گا۔ اسی نقطہ نظر سے مغلیہ حکومت کی طاقت کو شریعت اور اسلام کے اقتدار کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔
اکبر کی مذہبی رواداری کی پالیسی ہندوستانی تاریخ کے بہترین پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ اکبر ایک فلسفی بادشاہ ہے ، جس نے ایک نیا مذہب ، دین الٰہی شروع کیا۔ ایک طاقتور شہنشاہ ہونے کے باوجود اکبر نے اپنا مذہب کسی پر مسلط نہیں کیا۔ اس کی شادی کی پالیسی بھی قابل غور ہے ۔ اکبر نے راجپوت راجکماریوں سے شادی کی تو شہزادیوں کی شادی راجپوت کرائی۔ مغل دور میں شریعت کے مطابق موسیقی اور پینٹنگ کی ایک قابل ذکر ترقی ہوئی ۔ اسی وقت کبیر ،روی داس جے سی اور تلی داس جیسے عالمی معیار کے مصنّفین ہیں ، جو رائے عامہ بناتے ہیں اور مذہبی عقائد کی تردید کرتے ہیں۔
ہندوتوا کی مقدس کتاب ‘’رام چرت مانس‘ کی ترتیب اکبر دور میں ہوئی۔ یہ تمام اعداد و شمار قرون وسطی کے یورپی فنومیناکو خارج کرتےہیں۔لیکن کچھ ہندوستانی مورخین نے کم و بیش نوآبادیاتی نقطہ نظر سے تاریخ لکھی۔
مورخین نےآریہ ، شک ، ہنز ،یون اور بعد میں ترک ، افغان وغیرہ غیرملکی طاقتوں اور قبائلیوں کی آمد کاتجزیہ کرتےہوئےآریوں کے تناظر میں ’آریوں کی آمد‘درج کیا، جبکہ ترک اور افغانوں کی آمد پر لکھے گئے باب کا پس منظر ’مسلمانوں کا حملہ آور‘ کےطور پر درج کیا۔
رامدھاری سنگھ دنکر نے اپنی مشہور کتاب ’سنسکرتی کے چار آدھائے‘ میں لکھا ہے کہ ’اسلام جب اپنے عروج پر تھا تب بھی وہ بھارت میں آچکا تھا۔ مگر تب اس کی آمد دوست کے ناطے ہوئی تھی۔عرب ،افغانستان اور مصر سے بھارت کا قدیم تجارت تعلق تھا۔ بھارت اور مغربی ساحل کے درمیان وسیع پیمانے پر تعلقات میں عرب سوداگروں کا کافی ہاتھ تھا۔ عرب سوداگروں کا پہلا بیڑا بھارتیہ ساحل پر 636 عیسوی میں آیاتھا۔ اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ سندھ پر محمد بن قاسم کی چڑھائی 712 عیسوی میں
ہوئی۔ مگر بھارت کے مغربی ساحل پر عرب سوداگربہت پہلے سے آرہے تھے اور موپلا لوگوں نے تبھی اسلام قبول کیا تھا۔ مگر یہ تبدیلی مذہب پیار ومحبت سے کئےگئےتھے۔ جبراً نہیں۔
قرون وسطیٰ کی تاریخ کے مشہور اسکالر ہربنس مکھیا لکھتے ہیں ، ’ترک ہندوستان آئے۔ ایک ویر ،جنگجو ،حکمراں طبقہ کی طرح ،جنہیں نئے علاقے کی تلاش تھی۔ نہ کہ وہ کسی مذہبی یا مشنری جنگجو کی طرح ہاتھوں میں تلوار اٹھائے آئے تھے۔‘
بھارت میں اسلام کی تشہیر وتبلیغ صوفیائے کرام کے ذریعہ ہوا ۔ دراصل ہندو مذہب میں محروم ذاتوں اور دلتوں کےساتھ بھید بھاؤ نےاسلام کو اپنایا ۔
پاکستان کے مشہور مورخ مبارک علی نے ’ اتہاس کار کامتانتر ‘ (ہندی ترجمہ) کتاب میں مسلمانوں کی آمد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا: ’’مسلمان تین مراحل اور تین مختلف عہدوں پر ہندوستان آئے۔ سب سے پہلے عرب تاجروں نے جنوبی ہندوستان آیا اور مقامی حکمرانوں کی چھتری تلے ساحلی شہروں میں آباد ہوا۔ ان تجارتی روابط نے عرب دنیا کو ہندوستان کی بے پناہ دولت اور خوشحالی کے بارے میں معلومات فراہم کیں ، جس سے عرب حکمرانوں نے ہندوستان پر حملہ کرنے اور اس کی دولت پر قبضہ کرنے کی ترغیب دی، تاجر ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں سامراج کی اور فتوحات کی راہ ہموار کی۔ بے شک ، دونوں خیالات میں انتہا پسند ہیں، مسلم جارحیت ایک کے لیے فخر اور دوسرے کے لیے غلامی ہے، لیکن دونوں سچ سے دور ہیں۔
دراصل بھارت کی تعمیر طویل عمل میں ہوئی۔ اس میں مختلف گروہ آتے گئے اور ملک بنتا گیا۔ اس عمل میں مختلف مذاہب اور ثقافت سے بھارت مالا مال ہے ۔ اس لئے اس ملک کو بنانے میں کم وبیش سب کی قربانی ہے ۔ اس لئے تاریخ کی غلط تشریح اور غلط سوچ ملک کے قطعی مفاد میں نہیں ہوسکتے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)