ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سوال :
ہمارے والد صاحب کا وطن ناگ پور تھا ۔ تین برس قبل ہم پونہ شفٹ ہوگئے تھے ۔ والد صاحب کا ارادہ تھا کہ ناگ پور کے گھر کو فروخت کرکے پونہ میں گھر لے لیں گے ۔ چھے ماہ قبل ان کا انتقال ہوگیا ہے ۔
ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔ والدہ ابھی حیات ہیں ۔ کیا ہم اپنے آبائی گھر کو فروخت کرکے والدہ کے نام سے پونہ میں نیا گھر لے سکتے ہیں؟
جواب:
اسلام میں تقسیمِ وراثت کی بڑی اہمیت ہے ۔ اس کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔ کسی شخص کا انتقال ہو تو اس کی مملوکہ تمام چیزیں ، خواہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ اور ان کی مالیت کم ہو یا زیادہ ، اس کے قریب ترین ورثہ میں تقسیم ہونی چاہییں ۔ سورۂ نساء میں یہ بیان کیے جانے کے بعد کہ وراثت پانے کا حق جس طرح مردوں کو ہے اسی طرح عورتوں کو بھی ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مِمَّا قَلَّ مِنہُ اَو کَثُرَ نَصِیباً مَفرُوضاً (النساء : 7)” (یہ مال)خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے ۔ “
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے :
” میراث بہر حال تقسیم ہونی چاہیے ، خواہ وہ کتنی ہی کم ہو ، حتّیٰ کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں تو اسے بھی دس حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے ۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے ان کا حصہ خرید لے ۔ اس آیت سے یہ بات بھی مترشّح ہوتی ہے کہ وراثت کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہوگا ، خواہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ ، زرعی ہوں یا صنعتی ، یا کسی اور صنفِ اموال میں شمار ہوتے ہوں ۔ “ (تفہیم القرآن ، جلد اوّل ، سورۂ نساء ، حاشیہ نمبر 12)
تقسیم وراثت میں ایک بات یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ مستحقین کو ان کا حصہ ملنا چاہیے ، البتہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اپنا حصہ کل یا اس کا کچھ جز چھوڑ سکتے ہیں ، یا کسی کو دے سکتے ہیں ۔
آپ کے والد صاحب کا انتقال ہوا تو ان کی وراثت آپ کی والدہ اور آپ بھائیوں اور بہنوں میں تقسیم ہونی چاہیے ۔ سورۃ النساء میں صراحت ہے کہ کسی شخص کا انتقال ہو اور وہ صاحبِ اولاد ہو اور اس کی بیوی بھی زندہ ہو تو بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا ۔ (آیت 12) باقی اولاد کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر لڑکے کو ہر لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے گا : لِلذّکَرِ مِثل حَظِّ الاُنثَیَینِ (آیت:11) بہ الفاظ دیگر آپ کے والد صاحب کی پراپرٹی درج ذیل تفصیل کے مطابق تقسیم ہوگی :
بیوی کا حصہ 12.5فیصد
ہر لڑکے کا حصہ 29.2 فیصد دو لڑکوں کا حصہ 58.3 فیصد
ہرلڑکی کا حصہ 14.6فیصد دو لڑکیوں کاحصہ 29.2 فیصد
البتہ اس کی گنجائش ہے کہ اگر آپ سب بھائی بہن چاہیں تو اپنا اپنا حصہ اپنی والدہ کو دے سکتے ہیں۔ اس طرح نیا گھر خرید کر اس کی رجسٹری اپنی والدہ کے نام کرواسکتے ہیں ۔
[ شائع شدہ : ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی ، ماہ اگست 2021 مکمل شمارہ پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے http://www.zindgienau.com/