تحریر:محمد آصف اقبال
ہم یہ بات ماہرین لسانیات سے سنتے آئے ہیں کہ ہر مادری زبان کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔جس کے نتیجہ میں مخصوص مذہب،عقائد، نظریات، تہذیب ،ثقافت، تمدن، معاشرت، معیشت ہر سطح پر اس زبان کا ایک تہذیبی ورثہ ہوتا ہے۔وہیں مخصوص زبان سے وابستہ رہنے، اسے ختیار کرنے، اسے بولنے اور لکھنے کے صلاحیت کے نتیجہ میں اس مخصوص ورثہ سے تعلق برقرار رہتا ہے۔ برخلاف اس کے مادری زبان کے علاوہ جس زبان کو جو شخص یا قوم اپنی مادری زبان بناتی ہے، غالب امکان یہ ہے کہ وہ اسی میں رچ بس جاتے ہیں یا رچ بس جانے کے امکانات قوی ہو جاتے ہیں۔اس طرح دو زبانوں کے ثقافتی فوائد کیحوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اقلیتی پس منظر کے حامل گھرانوں کے بچے جو اپنے والدین کی زبان پر عبور رکھتے ہوں انھیں اپنے والدین کے تہذیبی ورثے میں حصہ پانے کا زیادہ موقع ملتا ہے اس طرح بچے کی شناخت کو تقویت ملتی ہے۔
لیکن یہ بھی درست ہے کہ موجودہ دور میں ترقی پذیر ممالک میں مادری زبان کے علاوہ عموماً معیشت سے وابستہ زبان کو اختیار کیا جاتا ہے تاکہ اس زبان کے سیکھنے اور اس پر عبور حاصل کرنے کے بعد فرد یا قوم کی معیشت بہتر ہو۔ وہیں دو زبانیں بولنے والے افراد کو طبی لحاظ سے بھی فوائد حاصل ہیں جیسا کہ ایک حالیہ اشاعت میں بتایا گیا ہے کہ دو زبانیں بولنے والے افراد کو دماغی بیماری ڈیمینشیا لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ لیکن زبانیں سیکھنے اور اس پر عبور حاصل کرنے کے فائدہ یہیں تک محدود نہیں ہیں اس کے مزید فوائد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں گرچہ سیکھنے والا شعوری طور پر پختہ ہو یا سیکھنے اور زبان پر عبور حاصل کرنے کے بعد اس کے شعور کو بالیدگی حاصل ہوجائے۔
موجودہ دور میں بہت اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا کوئی اپنی مادری زبان بھول سکتا ہے؟یہ سوال اس لیے بھی توجہ طلب ہے کہ گلوبلائیزیشن نے دنیا کو محدود کردیا ہے اور سمٹ کر رکھ دیا ہے۔لیکن زبان کو بھولنے یا اس کے تہذیبی ورثہ سے دوری کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جبکہ ایک شخص تعلیم یا روزگار کے لیے اپنی مادری زبان کے علاوہ دیگر زبانوں کو اختیار کرتا ہے۔وہاں جس ماحول اور کلچر میں وہ اپنے شب و روزکے اوقات گزارتا ہے ،خود کو اسی زبان و تہذیب میں ڈھالنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔نتیجہ میں مادری زبان سے دوری عام مسئلہ بن کے ابھرتی ہے۔
مونیکا، فی الحال زبان کے بھولنے کے عمل پر تحقیق کر رہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بچوں میں اپنی مادری زبان چھوڑ کر دوسری زبان سیکھنے کا عمل عام بات ہے کیونکہ بچے کا ذہن نئی چیزیں زیادہ آسانی سے سیکھتا ہے۔ پرانی باتیں بھولنا بھی ان میں عام ہے۔ 12 سال کی عمر تک کسی بھی بچے کی زبان میں بنیادی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ یعنی ہ اپنی مادری یا پیدائشی زبان کو مکمل طور پر بھول سکتا ہے۔کسی بچے کو نو سال کی عمر تک کسی دوسری زبان والے ملک میں بسا دیا جائے تو وہ اپنی مادری زبان مکمل طور پر بھول جاتا ہے۔
زبان کے اس بھٹکاؤ پر ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کی لارا ڈومنگوئز نے بھی تحقیق کی ہے۔ لارا نے برطانیہ میں رہنے والے ہسپانوی لوگوں اور امریکہ میں آباد کیوبا کے لوگوں پر تحقیق کی ہے۔لارا نے پایا کہ برطانیہ میں آباد ہسپانوی دور ،دور آباد تھے اس لیے ان میں سے اکثر انگریزی بولتے تھے جبکہ امریکہ میں آباد کیوبا کے باشندے زیادہ تر میامی میں آباد ہیں اور وہ ہسپانوی بولتے ہیں کیونکہ ان کے آس پاس رہنے والے لوگ اپنی مادری زبان ہسپانوی بولتے ہیں۔ اس زبان کی بھولنے اور نہ بھولنے کے اثرات ان کی تہذیب و ثقافت پر بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
لہٰذا یہ بات والدین کو اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ مادری زبان میں ہی بچے کو ایک نسل اپنا ماضی منتقل کر تی ہے اور مادری زبان میں ہی ایک نسل اپنے ثقافتی مستقبل کی تعمیر کر تی ہے۔مادری زبان کے محاورے بچے کے مزاج کا پتہ دیتے ہیں ، زبان کی تراکیب انسان کی زبان کے علاقائی پس منظر کا اندزاہ لگانے میں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔اور مادری زبان کی شاعری جو ماں بچوں کو سلاتے ہوئے لوری میں سناتی ہے یا روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کے لیے گنگناتی ہے اور بہت ہی چھوٹی عمر میں کھیل تماشوں میں پڑھے جانے والے ٹوٹے پھوٹے اشعار کسی بھی زبان کی وہ بنیادیں ہیں جن پر اسکا شاندار محل تعمیر ہوتا ہے۔
گفتگو کے پس منظر میں مادری زبان سے نہ صرف والدین کی وابستگی ضروری ہے بلکہ والدین کو اپنے بچوں کو بھی مادری زبان سکھانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔اس کے باوجود کہ دیگر زبانوں کو سیکھنے اور اس پر عبور حاص کرنے کا عمل بیک وقت جاری رہ سکتا ہے۔ اور بچے کامستقبل ہر لحاظ سے ارتقائی منازل طے کرتا ہواکامیابی و کامرانی سے ہمکنا ر ہوسکتا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)