پربھو چاولہ
اقتدار لالچ کا وہ ناقابل برداشت ظرف ہے ، جو بڑے اور اعلیٰ لوگوں کے من کو کبھی نہیں بھرتا۔ اسٹیبلشمنٹ کے ذہین لوگ اپنی سلطنت سے باہر بھی طاقت اور وقار بڑھانے کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ عام طور پر سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنی جاگیر بڑھانے کے لیے لڑتے رہتے ہیں۔ غیر معمولی طور پر ایک جنرل اس میں شامل ہو گیا ہے۔
سینک یونیفارم میں اولیور ٹوئسٹ ، جنرل بپن راوت ، ہمارے موجودہ چیف آف ڈیفنس اسٹاف کو بہت جلد بازی ہے ، وہ ایک فوجی میکیاویلی ہیں ، جو سازش کے بعد اور خفیہ بات چیت کرکے آزادی کے بعد سب سے طاقتور سپاہی بن بیٹھے ہیں۔
وہ اس وقت چیف آف ڈیفنس اسٹاف ہیں، اس کے ساتھ ہی وزیر دفاع کے چیف ملٹری ایڈوائزر ، ملٹری امور کے سکریٹری اور نیوکلیئر کمانڈ اتھارٹی کے ملٹری ایڈوائزر بھی ہیں۔ وہ تین سال تک چیف آف آرمی اسٹاف رہے اور ایک ڈسپلنڈ سپاہی کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں۔
مودی حکومت نے ان کی مدت کار 65 سال کی عمر تک بڑھا دی۔ وہ 31 دسمبر 2019 کو ریٹائرہونےکے ایک دن پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف بنا دئےگئے۔ اس پرومشن کےبعد وہ اولیو گرین یونیفارم میں چیف آف ڈیفنس اسٹاف اور اورسکریٹری دونوں کے عہدے پر فائز رہنےوالے تنہا افسر بن گئے ۔
چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی تعیناتی کو فوجی اسٹیبلشمنٹ میں بہتری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن وہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی اور کئی جیتوں کو حاصل کرنے والی ڈسپلنڈ فوج کے سربراہ کے بجائے کسی راجا کے پولیٹکل سکریٹری زیادہ لگ رہے ہیں ۔
طلباء کی تحریک پر تنقیداورسی اے اے کےخلاف تحریک کرنے والوںکے خلاف دھار دار الفاظ کااستعمال کرکے انہوں نے اپوزیشن کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار دے دیا جو ان کے پیشہ ور انہ رویہ پر سوال اٹھاتے رہےہیں ۔ سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ان سے کہا کہ’ وہ فوج پر توجہ دیں اور اپنے کام سے مطلب رکھیں ۔‘ انہوںنے چدمبرم کےمشورے کو زیادہ ہی لفظی معنی میں لے لیا ، ان کےمخالفین کا کہنا ہے کہ راوت کا کام زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنا ہے۔
چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا کام فوج کے تینوں شعبوں – زمینی، فضائیہ اور بحریہ کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنا اور نئی چیزیں حاصل کرنا ، فوج کی تعیناتی کو دیکھنا اور اثاثوں کا صحیح استعمال کرنا ہے۔ وہ اپنے صواب دید کا استعمال کرنے کی فوجی روایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنےعزائم کو چھپاتے نہیں ہیں۔ گزشتہ ہفتہ انہوں نے اپنے مستقبل کے کام کاج کا روڈ میپ خود تیار کرلیا۔ محکمہ دفاع کی قیادت میں تبدیلی کے بارے میں کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے ، وزیر اعظم اور وزیر دفاع نے بھی ابھی تک کچھ نہیں کہا۔ لیکن بپن راوت نے عوامی طور پر اس کا اعلان کردیا۔
یہ کام ابھی جاری ہے۔ فی الحال ، جنرل کو ایک جھٹکا لگا ہے کیونکہ سینئر سکیورٹی حکام نے شدید اعتراضات کئے ہیں۔ سروس کے درمیان دشمنی کے باوجود ، تھیٹر کمان کا تصور جلد نافذ کیا جائے گا۔ لیکن جنگی منصوبہ ابھی تک نہیں بنایا گیا۔ وزارت دفاع اس وقت مطالعہ کر رہی ہے کہ سی ڈی ایس سسٹم 67 ممالک میں کیسے کام کر رہا ہے۔
امریکہ میں سی ڈی ایس براہ راست صدر کو رپورٹ کرتا ہے ، جو کمانڈر انچیف ہوتا ہے۔ برطانیہ میں سی ڈی ایس پارلیمنٹ کو رپورٹ کرتا ہے۔ بھارت میں پارلیمانی نظام ہے جو کابینہ کے ذریعے کام کرتا ہے لہٰذا معاملہ قدرے پیچیدہ ہے۔ پوری دفاعی اسٹیبلشمنٹ وزیر دفاع کو رپورٹ کرتی ہے۔ تینوں سروس چیفس اور سی ڈی ایس اسے فوجی معاملات پر مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی قومی سلامتی کا مشیر وزیراعظم کو مشورہ دیتا ہے ، ان کا عہدہ کابینہ کے ایک وزیر کے برابر ہوتا ہے۔دوسری طرف راوت نے دفاعی خریداری کے نظام کو مکمل طور پر محفوظ کر کے شفافیت لائی ہے۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لوگ بھارت کی جنگی کمان سنبھالنے اور انتظامی اختیار برقرار رکھنے کے جارحانہ لالچ کی وجہ سے مشکلات کے شکار ہیں۔
جمہوری نظام سے طے کئے ہوئے درجہ بندی سے اقتدار کے بھوکے جنرل کی جارحانہ ٹکراؤ کئی بدنما مثالیں قائم کررہی ہیں ۔ دفاعی اسٹیبلشمنٹ کی انتظامیہ میں بغاوت کے ذریعے راوت بھارت کے اس ادارے کو کمزور کر رہے ہیں جو ان چند اداروں میں سے ایک ہے جس میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ کسی کی خواہشات کی وجہ سے کمزور ہوا ہے۔
(بشکریہ : دی نیو انڈین ایکسپریس ،یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)