تحریر: مسعود جاوید
اسلامی نعروں ، علامتی پرچم اور اخباری بیان بازیوں سے عوام اور دنیا کو کچھ وقت کے لئے گرویدہ بنایا جا سکتا ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے عموماً وہ عہد وپیمان اور جذباتی نعرے اور بیان کھوکھلے ثابت ہونے لگتے ہیں۔
ملک ، تنظیم یا ادارے کا اسلامی یا جمہوریہ نام رکھنے سے وہ اسلامی یا جمہوریہ نہیں ہوتے۔ نام نہ بھی ہو مگر کام اسلامی یا جمہوری ہو تو وہ اسلامی اور جمہوری ہوں گے۔
سولہویں صدی عیسوی میں فرانس میں انقلاب (1789)کے بعد فرانس ایک جمہوری ملک کے طور پر22 ستمبر1792کو معرضِ وجود میں آیا اس کے بعد سے ہی دنیا کے زیادہ تر ملکوں میں بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا تھا ۔ بایں طور فرانس عصر حاضر کا پہلا جمہوری ملک ہے۔ یہ ایک سوشلسٹ ڈیموکریٹک اسٹیٹ ہے مگر اس نے اپنے نام کے ساتھ ایسا کوئی سابقہ یا لاحقہ نہیں لگایا۔
دنیا میں بہترین جمہوری نظام شمالی یورپ کے ممالک میں قائم ہیں۔سب سے مضبوط جمہوری ملک میں سر فہرست ناروے، اس کے بعد بالترتیب آیسلینڈ، سویڈن، نیو زیلینڈ، ڈنمارک، کینیڈا، آئرلینڈ، سویٹزرلینڈ، فنلینڈ اور آسٹریلیا ہیں۔ اس کے بعد امریکہ، برطانیہ اور جرمنی ہیں۔ تاہم ان کے نام کے ساتھ ڈیموکریٹک کا سابقہ یا لاحقہ نہیں ہے۔ اس کے مقابل لیبیا جس کا باضابطہ سرکاری نام الجماهيرية العربية الليبية الشعبية الاشتراكية العظمى ہے نام اور کام کے فرق سے ہم سب واقف ہیں کہ لیبیا کتنا ڈیموکریٹک سوشلسٹ عوامی اور عظیم تھا، پاکستان کا آفیشیل نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کتنا اسلامی اور کس درجہ کا جمہوری ملک ہے۔
کوئی بھی ریاست اور اس کی حکومت دنیا سے کٹ کر خالص اپنے مقرر کردہ نظام کے تحت نہیں چل سکتی ہر ایک ملک کے لئے عالمی برادری کا حصہ بننا اور مہذب دنیا میں رائج باہمی اخذ و عطا کے نظام سے وابستہ ہونا ناگزیر ہے۔ اور اسی وابستگی کا تقاضا ہوتا ہے کہ بعض اوقات شرعیہ قوانین پر عمل کرنے کے عہد و پیمان کے باوجود اس کا نفاذ نہیں کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سود شرعی طور پر ایک لعنت ہے۔ مگر انٹرنیشنل مونیٹیری فنڈ، ورلڈ بینک اور دیگر بینکوں سے لین دین کرنا ریاستوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ عام لوگوں کے سامنے بھی کوئی بدیل نہیں اس لئے بینکوں کے ساتھ معاملات اضطراری حالت کے تحت روا ہے۔ مسلم ممالک کی اتنی بڑی تعداد ہے لیکن افسوس ان ممالک نے بلا سودی بینک، اسلامی بینک، شرعیہ کمپلائیڈ بینک قائم نہیں کیا۔
تاہم ان گونا گوں پیچیدگیوں کے باوجود اگر کوئی مسلم ملک سنجیدگی سے کوشش کرے تو کسی حد تک ایک ماڈل مسلم اسٹیٹ قائم کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر افغانستان بہترین تجربہ گاہ ثابت ہو سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ دین اور سیاست میں جدائی پیدا کرنے کی بجائے تطبیق کی کوشش کی جائے۔ شوری کا نظام اور جمہوری نظام میں جو قدر مشترک ہے وہ پیش نظر رہے نا کہ عالمی برادری کو چڑھانے کے لئے جمہوری نظام کو طاغوتی نظام کہہ کر یکسر مخالفت کی جائے۔
قبائلی نظام میں عورتوں کی آزادی پر سخت پہرے داری ہوتی تھی اور ہوتی ہے۔ یہ افغانستان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ یورپ اس سے مستثنیٰ نہیں تھا تاہم جمہوری نظام سے جیسے جیسے اقوام عالم واقف ہوتی گئیں اور سوچ میں تبدیلی آتی گئی۔ وہ جمہوریت جو بلا شبہ اسلامی تعلیمات سے متصادم نہیں ہے اس نے مساوات پر زور دیا ، عورت مرد مالدار غریب دیہاتی اور شہری میں تفریق کو منع کیا، عورتوں کے ساتھ ظلم و استبداد کا بہت حد تک خاتمہ کیا ان کے حقوق کو تسلیم کیا ، حق زیست، حق تعلیم اور حق روزگار وغیرہ کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ جمہوری حکومتوں کو یہ حقوق دینے اور ان کے حصول میں سہولیات فراہم کرنے کا پابند کیا۔ اس سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے گا کہ اس جمہوری نظام نے ظلم کی چکی میں پستی ہوئی انسانیت کو بہت حد تک راحت پہنچانے کا کام کیا ہے۔
تجارت کا ایک اصول یہ ہے کہ جب تک پروڈکٹ کی افادیت سے صارفین خوب واقف نہیں ہو جاتے پروڈکٹ بغیر لیبل یا کسی کامن نیم لیبل سے مارکیٹ میں چلایا جاتا ہے۔ صارفین کی پسندیدگی کسی حد تک یقینی ہو جاتی ہے تو اسے اپنے نام لیبل برانڈ سے مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔ اسلام اور مسلم نام سے بہت سے غیر مسلموں کو الرجی ہوتی ہے۔ ایسے میں کیا ضروری ہے آپ اسلامی بینک کے نام سے شروع کریں۔ سود در سود وغیرہ سے ہر فرقہ کے لوگ پریشان ہوتے ہیں عملی طور پر اس سے نجات ملے گا وہ بورڈ بینر سے زیادہ اسلامی کام کی تشہیر کرے گا۔ آپ بلا سودی بینک کا چین پورے ملک بلکہ پورے عالم میں پھیلا دیں سود کے متعلق اسلام کے انسان دوست اور غریب پرور نظام سے دنیا واقف ہو جائے گی۔
آپ اسے مرعوبیت کہہ سکتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ مقصد اگر اسلام ہے تو مصلحت کا تقاضا یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ شرعی قوانین کا نفاذ عصری پیرہن میں کیا جائے۔ دینی اصطلاحات پر اس قدر اصرار کیوں ؟
آزادی اظہار رائے، انسانی حقوق ، عورتوں کے حقوق، دینی علوم کے لئے درسگاہوں کے ساتھ ساتھ عصری علوم کے لئے دانشگاہیں، لڑکے اور لڑکیوں کے لئے تعلیم کے یکساں مواقع ، شفاء خانے ملٹی اسپیشیلیٹی ہاسپیٹل کھیل کود کے میدان اور حوصلہ افزائی یہ چند وہ کام ہیں جن کو لے کر افغانستان کی نئی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ اور بالواسطہ اسلام کی تصویر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
کیا افغانستان اسلامی امارت، اسلامی ریاست، اسلامی جمہوریہ کے بجائے فقط ریپبلک آف افغانستان؛ ایک ماڈرن مسلم ملک بن کر ابھر سکتا ہے جو ہمسایہ ممالک اور اقوام عالم سے اچھے سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کرے، جہاں شریعت کے ساتھ صریح تصادم نہ ہو وہاں نام اور نعرہ چھوڑ کر عالمی برادری کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلے ؟ یہ خبر خوش آئند ہے کہ نئی افغان حکومت نے کہا ہے کہ ان کی جنگجو تحریک سے باہر کے لوگوں کو بھی حکومت میں شریک کرنے کے لئے بات چیت ہو رہی ہے۔
کوئی ایک مسلم ملک تو ایسا سامنے آئے جو اسلام کے حقیقی معاشرتی نظام سے دنیا کو واقف کرائے کہ اسلام نے متعدد المذاھب اور مختلف ثقافتوں والی دنیا میں ہمیں peaceful coexistence پرامن بقاء باہمی کا کیا سبق سکھایا ہے۔ غیر مسلموں کے دیوی دیوتاؤں کو برا بھلا کہنے اہانت کرنے سے منع کیا ہے، ۔مذہبی پیشواؤں پر ہاتھ اٹھانے سے روکا ہے۔ غیروں کو ان کے مذہب تبدیل کرنے کے لئے جبر سے روکا ہے اور کہا ہے دین اسلام میں جبر نہیں ہے اور یہ کہ تمہارے لئے تمہارا دھرم اور میرے لئے میرا دین۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)