تحریر:سید علی مجتبی (چنئی )
مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اور تلنگانہ میں حال ہی میں ختم ہونے والے اسمبلی انتخابات میں مقننہ میں مسلم کمیونٹی کی نمائندگی میں کمی دیکھی گئی ہے۔ اسے خود پر غور کرنے کی ضرورت ہے بہرحال اس کمیونٹی پر الزام نہیں لگایا جا سکتا جس کی نمائندگی ریاستی اسمبلیوں میں تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
230 رکنی مدھیہ پردیش اسمبلی میں صرف 02 مسلم ایم ایل اے ہیں۔ راجستھان کی 200 رکنی اسمبلی میں صرف 6 مسلم ایم ایل اے ہیں۔ تلنگانہ کی 119 رکنی اسمبلی میں صرف 07 مسلم ایم ایل اے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں، 90 رکنی اسمبلی میں کوئی مسلم نمائندگی نہیں ہے۔
مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کی آبادی 7 فیصد ہے اور ان کی انتخابی طاقت کے مطابق مسلمانوں کے پاس کم از کم 16 ایم ایل اے ہونے چاہئیں لیکن کمیونٹی کے صرف 2 نمائندے ہیں۔ بی جے پی کے 163 جیتنے والوں میں کوئی مسلمان نہیں ہے۔ ریاست میں، کانگریس جس نے کل 66 سیٹیں جیتی ہیں، پارٹی کے 2 دو مسلم ایم ایل اے ہیں، دونوں بھوپال سے ہیں۔
چھتیس گڑھ میں، مسلمان قانون ساز اسمبلی میں اپنی کم ہوتی ہوئی نمائندگی کو دیکھ رہے ہیں۔ 90 رکنی قانون ساز اسمبلی میں ایک بھی مسلم ایم ایل اے نہیں ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق چھتیس گڑھ میں مسلمان تقریباً 2.2 فیصد ہیں اور 2023 میں یہ 3.5 فیصد ہو سکتے ہیں، لیکن اسمبلی میں مسلمانوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں نے ٹکٹوں کی تقسیم میں مسلمانوں کو نظرانداز کیا ہے۔ کانگریس نے صرف ایک امیدوار محمد اکبر کو میدان میں اتارا جس نے 2018 کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس بار وہ اپنے حلقہ کاواردھا میں بی جے پی کے وجے شرما سے ہار گئے۔ کاوردھا حلقہ سے کانگریس کے امیدوار محمد اکبر کو بی جے پی نے خاص طور پر نشانہ بنایا تھا اور انکی شکست کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
200 رکنی راجستھان اسمبلی میں 6 مسلم ایم ایل اے ہیں۔ بی جے پی کے ٹکٹ سے جیتنے والے 115 میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں ہے تمام جیتنے والے مسلم ایم ایل ایز کا تعلق کانگریس پارٹی سے ہے سوائے یونس خان کے جو آزاد حیثیت سے جیتے ہیں۔ 2018 میں یونس خان نے بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا۔ کانگریس نے 15 مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے لیکن ان میں سے 10 الیکشن ہار گئے، زیادہ تر بی جے پی امیدواروں کے خلاف ہارے۔راجستھان میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 10 فیصد ہے اور ان کے پاس کم از کم 20 مسلم ایم ایل اے ہونے چاہئیں لیکن صرف 6 مسلمان ہی اسمبلی میں پہنچے ہیں۔
تلنگانہ کی 119 رکنی اسمبلی میں صرف 7 مسلم ایم ایل اے ہیں۔ تمام 7 امیدواروں کا تعلق اے آئی ایم آئی ایم سے ہے۔ کانگریس پارٹی نے کل 64 سیٹیں جیتیں لیکن ان میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں تھا۔ حکمراں بی آر ایس نے کل 39 سیٹیں جیتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں ہے۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 13 فیصد ہے اور ان کے پاس کم از کم 15 مسلم ایم ایل اے ہونے چاہئیں لیکن اسمبلی میں صرف 7 مسلم ممبران ہیں۔
تلنگانہ میں بی جے پی نے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیے لیکن کانگریس اور بی آر ایس نے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیے لیکن ان میں سے کوئی بھی الیکشن نہیں جیت سکا۔
تلنگانہ میں 7، راجستھان میں 6 اور مدھیہ پردیش میں 2 مسلم ایم ایل ایز کے ساتھ، ہندوستان کی تینوں ریاستوں میں حکمران پارٹی کی طرف سے کوئی مسلمان منتخب رکن نہیں ہے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے جس چیز کا بھرپور مظاہرہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان سیاسی نمائندگی کے معاملے میں پسماندہ ہیں اور یہ کمیونٹی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
اسمبلی کے نتائج نے یہ پیغام دیا ہے کہ یہ سیاست ہی ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کے مستقبل کا فیصلہ کرنے جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو مسلمانوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس قسم کی سیاست چاہتے ہیں، اگر انہیں اس ملک میں عزت کے ساتھ رہنا ہے۔
(نوٹ:یہ مضمون Muslim mirror میں شائع ہوا ہے افادیت کے پیش نظریہاں اس کاترجمہ دیاجارہا ہے )