تجزیہ:مفتی محمد اطہر شمسی( کیرانہ)
واقعات کو ایک مخصوص معنیٰ پہناکر پیش کرنے کا نام بیانیہ ہے ۔بیانیہ میں محض واقعات ہی نہیں ہوتے بلکہ ان واقعات کے ساتھ ایک خاص نظریہ ، لاجک ،جذبات اور مقاصد بھی شامل ہوتے ہیں ۔ ایک ہی واقعہ کو متعدّد بیانیہ کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے ۔بیانیہ عینک کے لینس کی طرح ہے۔لینس اگر بدل جائے تو چیزوں کے بارے میں آپ کی رائے اور نظریہ تبدیل ہو جاتا ہے ۔
بیانیہ سے آپ کی نفسیات اور فیصلے متاثر ہوتے ہیں ۔آپ کے جذبات ، دوسروں کے ساتھ آپ کے تعلقات بیانیہ طے کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن بحثیت اُمت مسلمانوں کو روز اول سے وہ بیانیہ عطا کرتا ہے جو ان کی زندگی میں امید اور عمل میں اعتماد پیدا کرے ۔ قرآن کا بیان ہے ” ہم نے تمہیں درمیانی اُمت بنایا تاکہ تم تمام لوگوں پر گواہی دے سکو ( البقرۃ 2:143) . قرآن کے اس بیان کے مطابق مسلمانوں کو ایک بین الاقوامی رول عطا کیا گیا ہے ۔ تاکہ وہ دنیا بھر میں انصاف کے علمبردار بن کر کھڑے ہوں ۔اُنھیں ہدایت دی گئی کہ اگر انہیں انصاف کے معاملہ میں اپنوں کے خلاف بھی بولنا پڑے تو وہ اس سلسلہ میں کسی قسم کی رو رعایت سے کام نہ لیں ( الانعام 6 :152) ۔ مسلمانوں کے ذہنی افق کو وسیع کرنے کے لیے الناس اور العالمین جیسے الفاظ بار بار استعمال کیے گئے تاکہ اُن کا بیانیہ کہیں قومی اور گروہی مفادات اور تحفظات کی سیاست تک محدود نہ ہو جائے ۔
بیانیہ دراصل آپ کی شناخت طے کرتا ہے ۔بیانیہ سے ہی طے ہوتا ہے کہ آپ خود کو کیسے دیکھتے ہیں اور دنیا آپ کو کیسے دیکھتی ہے ۔Frantz Fanon کی تھیوری کے مطابق استعماریت کا شکار لوگ تحریف شدہ بیانیہ کے نتیجہ میں احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔اس بات کا سب سے بڑا مصداق اس وقت ہندوستانی مسلمان ہیں ۔ وہ خود اپنے آپ کو دوسری قوموں کو انصاف دلانے والی کمیونیٹی نہیں بلکہ ایک اقلیت کے طور پر دیکھتے ہیں جس کا رول اسٹیج کے کنارے پر ہوتا ہے نہ کہ اسٹیج کے مرکز میں ۔اسی تحریف شدہ بیانیہ کے نتیجہ میں دوسروں کو انصاف دلانے والی کمیونیٹی اپنے حقوق کی بھیک مانگنے والی کمیونیٹی بن کر رہ گئی ہے ۔Antonio Gramsci کے مطابق غالب گروہ بیانیہ سازی کے ذریعہ اپنی طاقت بنائے رکھتے ہیں ۔بیانیہ سازی کی طاقت کے پیش نظر انگریز مؤرخین اور دانشوروں نے ہندوستانی مسلمانوں کو غیر ملکی ،در انداز کی شکل میں پیش کیا جبکہ ہندوؤں کو یہاں کے مقامی باشندہ کی شکل میں۔یہی روایت تا حال زندہ ہے ۔اسی لیے مسلم حکومتوں کوظلم و جبر کے دور سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ سائنس ،آرٹ اور علوم میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں اور ملک کے تئیں مسلمانوں کی وفاداری مشکوک ہے ۔ قومی سلامتی کے لیے اُن کا وجود خطرہ سے خالی نہیں ۔انہیں جرائم اور دہشت گردی سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے ۔اُن کے مذہب کو انتہا پسند ، قدامت پسند جیسے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے ۔ تقسیم ملک کا تنہا ذمہ دار مسلمان قرار پاتے ہیں ۔ مسلم نوجوانوں کو بے روزگار اور ان کی سوسائٹی کو بد حال قرار دیا جاتا ہے ۔
منفی بیانیہ کے نتیجہ میں ہندوستانی مسلمان اُمت وسط سے ایک ” اقلیت” میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔ قرآن نے جن لوگوں کو تمام انسانیت کی خیر خواہی کی ذمہ داری سونپی تھی وہ خود اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہیں۔ بسا اوقات انہیں” ہندوستانی یا مسلمان "کے درمیان کی لڑائی لڑنی پڑتی ہے ۔مسلسل خوف اُن کے شعور اور لا شعور کا حصہ بن چکا ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ "محفوظ کھیل” کے عادی ہو گئے ہیں۔ رسک لیتے ہوئے آگے بڑھ کر ملک کی خدمت کرنا وہ سرے سے بھول چکے ہیں ۔سفر ، جاب انٹرویو ،سیاسی گفتگو میں انہیں حد سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ان کے بڑے بڑے رہنما قومی خود اعتمادی سے محروم ہیں ۔ ملک کے سیاہ و سفید کے مالکوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ان کے بس کا روگ ہی نہیں ۔نہایت قیمتی ذہانتیں اپنی کمیونٹی کی خوشحالی اور ترقی کے بجائے دفاع میں اُلجھی ہوئی ہیں ۔ذہنی لحاظ سے مسلمان اس کیفیت میں پہنچ چکے ہیں جسے نفسیات کی زبانِ میں Psychological Displacement کہا جاتا ہے ۔یعنی ایک ایسی ذہنی و نفسیاتی کیفیت جہاں آپ کا حریف آپ کو دیکھنا چاہتا ہے ۔اس ذہنی و نفسیاتی شکست کے بعد قوموں کو مزید کسی دشمن یا خارجی سازش کی ضرورت نہیں رہتی ۔
اس تمام مسئلہ کی جڑ وہ غلط بیانیہ ہے جسے ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر قبول کر چکے ہیں ۔افسوس ہے کہ لوگ ہمارے متعلق اپنا مطلوبہ بیانیہ تشکیل دیتے اور اسے پھیلاتے رہے ۔اور ہم آج تک اپنا جوابی بیانیہ بھی تشکیل تک نہیں دے سکے ۔ یہی نہیں بلکہ ہم بیانیہ سازی کی طاقت اور دور جدید میں اس کے آداب کا بھی سرے سے شعور نہیں رکھتے ۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے بیانیہ کے لیے اللہ کی کتاب کھولیں اور اسی سے پوچھیں کہ آخر طاقتور کے مقابلہ میں کمزور کا بیانیہ کیا ہونا چاہیے ۔یہ وہ ایمرجنسی ہے کہ جب تمام ملی تنظیموں ، اداروں اور افراد پر فرض ہے کہ وہ قرآن میں فرعون و موسیٰ ،اصحاب کہف اور حضرت یوسف علیہم السلام کے واقعات کھول کر دیکھیں اور معلوم کریں کہ قرآن کمزور اقوام کے لیے کیا بیانیہ سیٹ کرتا ہے ۔سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اس نقطہ نظر سے مطالعہ بھی لازم ہے کہ آپ نے کس طرح عرب کی قبائلی شناخت کو ایک عالمگیر بیانیہ سے بدل دیا ۔ تاریخ عالم کے اس سب سے عظیم مصلح بیانیہ Narrative Reformer پر لاکھوں سلام !
( مضمون نگار القرآن اکیڈمی کیرانہ کے ڈائریکٹر ہیں ۔)