تحریر: ثناء ظفر
اختلاف رائے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی مگر اب ہم منطق سے زیادہ اپنی انا کے قیدی بنتے جا رہے ہیں۔ احساس اور فکر سے عاری کسی عجیب مقابلے کی دوڑ میں لگے ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے در پے نظر آتے ہیں۔ اس تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کی کئی وجوہات ہیں اور سب سے نمایاں ہے سوشل میڈیا پر آزادی رائے اور اس میڈیا تک بہت آسان رسائی۔ اس میڈیا پر زیادہ تر تبادلہ خیالات لکھ کر کیا جاتا ہے۔ لہذا جو مواد عوام تک رسائی رکھتا ہے، وہاں عوام بے دھڑک اور زیادہ سوچے سمجھے بغیر ہی تبصرہ لکھنے میں کوئی وقت نہیں لگاتی۔
ایسے تبصرے یا کمینٹ تحریر کردہ مواد سے زیادہ لکھنے والے کی اپنی سوچ واضح کرتے ہیں۔ یہ فوری ردعمل چونکہ غیر زبانی ہوتا ہے، اس لیے اکثر مفہوم ہی بدل کر رکھ دیتا ہے اور ایک بڑی بحث شروع ہو جاتی ہے۔
حتی کہ یہ یہاں شائع ہونے والے بلاگز پر بھی زیادہ تر لوگ صرف عنوان یا عنوان کے ساتھ لکھی گئی دو سطریں پڑھ کر ہی فیصلہ کن تبصرہ کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور پورا بلاگ پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔
مختلف تحقیقات کے مطابق ماورائے زبان گفتگو کا اثر بنیادی الفاظ سے کہیں زیادہ ہے۔ یعنی ‘کیا‘ کہا جائے سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ ‘کیسے‘ کہا جائے۔ البرٹ مہرا بین ان پہلے چند محققین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے غیر زبانی گفتگو پر تحقیق کی۔ ان کے مطابق الفاظ تو صرف سات فیصد کردار ادا کرتے ہیں۔ 38 فیصد آواز کا اتار چڑھاؤ اور 55 فیصد غیر زبانی اشارے اہمیت رکھتے ہیں۔
چونکہ سوشل میڈیا پر تبصرہ لکھتے ہوئے ہم صرف اور صرف الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، اس لیے اکثر اوقات ایسی بے مقصد بحث چھڑ جاتی ہے، جس کا مقصد صرف دوسرے کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ احساس، برداشت اور کسی دوسرے کی رائے کا احترام بالکل ہی بھول کر کسی عجیب احساس برتری کو تھپکتے رہتے ہیں۔ یہ رویے تیزی سے کسی بیماری کی طرح پھیل رہے ہیں اور معاشرے کی اجتماعی سوچ میں شدت پسندی نظر آ رہی ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ رویے صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہے بلکہ عام زندگی کا حصہ بنتے بھی نظر آ رہے ہیں، جہاں تہذیب اور شائستگی گفتگو سے خارج ہوتی جا رہی ہے۔ مشہور دانشور پروفیسر ڈاکٹر سیدہ عارفہ زہرہ فرماتی ہیں کہ آواز وہ اونچی کرتا ہے، جس کی دلیل نیچی ہو۔ ان کی یہ ویڈیو گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی، جہاں وہ ادب، لحاظ اور برداشت سے دوسرے کی رائے کے احترام کا درس دے رہی ہیں۔ اس قدر خوبصورت گفتگو کرنے والے بزرگوں سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے اگر ہم ذہن کچھ کشادہ کر لیں۔
اس بحث برائے بحث رحجان کی کچھ حد تک ذمہ داری ہمارے تعلیمی نظام پر بھی ہے، جو تربیت سے زیادہ مقابلے پر زور دیتا ہے۔ گھر گھر میں بچوں کو اول آنے والے کی ہی مثال دی جاتی ہے۔ اخلاق، برداشت اور مہذب گفتگو کا سلیقہ تو سب کہیں پیچھے ہی رہ جاتے ہیں۔
میٹھا بولنا، جو شاید اخلاق کی سب سے بلند صفت ہے، وہ کہیں نمبر اور گریڈز کی دوڑ میں گم ہی ہو کر رہ گیا ہے۔ تہذیب، ادب، كتب سے لگاؤ اور سیکھنے کا جنون سب کچھ امتحانی نمبروں اور روپے پیسے میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم نے جانے انجانے میں اختلاف رائے کو نفرت اور دشمنی کے مترادف سمجھ لیا ہے۔ انفرادی سوچ کا مختلف ہونا تو کسی بھی معاشرے کی طاقت ہونا چاہیے مگر یہ اندھا دھند پیروی، صرف اپنے آپ کو صحیح اور باقی سب کو غلط سمجھنا کیوں اور کب ضروری ہو گیا؟ اس فوری اور شدید رد عمل میں اکثر خبر کی حقیقت جانچے بغیر ہی اس پر خوب بحث بھی کی جاتی ہے اور کھلے دل سے آگے پھیلایا بھی جاتا ہے۔
تنقيد برائے تنقید کا رجحان بھی کچھ بے معنی حد تک بڑھ گیا ہے۔ یہاں تو اگر کوئی یہ کہہ دے کہ اسے لال رنگ پسند ہے تو بہت سے لوگ فورا نیلے اور پیلے کی حمایت کو دوڑ پڑیں گے۔ موضوع مذہب ہو، سیاست ہو، کسی طبقے کے حقوق يا بالکل ہی کوئی بے مقصد بات ہو، ہر صورت میں تنقید اور اپنے آپ کو برتر ثابت کرنا لازم سمجھ لیا گیا ہے۔ سیاسی پارٹی کی اندھی حمایت اس کی سب سے بڑی مثال ہے، جہاں ہر ایک شخص اپنے لیڈر کو فرشتہ اور مخالف پارٹی کو ابلیس ثابت کرنے پر ایسے بضد ہے کہ ملک وقوم کی بہتری تو شاید کسی خاطر میں نہیں لائی جاتی۔
حال ہی میں ایک مقبول ترین سیاسی لیڈر کے ایک جلسے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر جس جوش وخروش سے دفاع کیا گیا کہ چونکہ دوسری پارٹی بھی یہی کرتی رہی ہے تو ہمارے پڑھے لکھے اور سب کے آئیڈیل لیڈر کو بھی یہ لائسنس حاصل ہونا ہی چاہیے بلکہ زور و شور سے کسی مزاح کے زمرے میں داد بھی دی گئی۔
یہ سوچ اور نظریہ انتہائی پریشان کن صورتحال اختیار کر رہا ہے اور نئی نسل کو صحیح راہ دکھانا بہت ضروری ہے۔ سوشل میڈیا پر دن رات بحث برائے بحث میں الجھ کر ناصرف عوام میں ادب اور لحاظ کا فقدان پایا جاتا ہے بلکہ خود اعتمادی کی کمی بھی بہت واضح ہے کیونکہ نظر ملا کر مہذب اور ٹھوس گفتگو کرنے سے کہیں آسان بلا سوچے سمجھے کمنٹ لکھنا ہے۔
بڑوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کھل کر مختلف موضوعات پر بات کرنے کی بچوں کو اجازت دیں اور بڑھاوا دیتے ہوئے انہیں مثالی رویہ ضرور دیکھائیں، جہاں وہ اختلاف رائے کے باوجود برداشت اور حوصلے سے دوسرے کی بات سنیں اور صرف اس لیے نہ رد کر دیں کہ وہ نقطہ نظر مختلف ہے بلکہ ہر گفتگو سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔
غیر زبانی اور بدن بولی کو اتنی اہمیت دیں کہ اپنا نقطہ نظر مؤثر طریقے سے پیش کرنا سیکھ سکیں۔ بچوں کی جذبانی ذہانت پر توجہ دیں تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ منطق سمجھنا اور کچھ نیا سیکھنا ضروری ہے صرف اپنے نظریے کا ضد میں دفاع کرنا نہیں۔
کبھی تو بزرگ بھی اپنے نظریے پر اتنے بضد نظر آتے ہیں کہ سلجھاؤ کی صورت مشکل ہوجاتی ہے۔ شائستہ اور بامقصد گفتگو کرنا ایک صلاحیت ہے، جو انسان کو بہت آگے تک لے جاسکتی ہے اور پورے معاشرے کی بہتری کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو،یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)