گردوپیش:محمد خالد (لکھنؤ)
جمہوری نظام حکومت کو "عوامی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لئے” کہا گیا ھے. ہندوستان کو دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہونے کا اعزاز حاصل ھے. یہی وجہ ھے کہ یہ ملک کبھی بھی کسی ایک سیاسی پارٹی کے زیر حکومت نہیں رھا ھے اور نہ ہی ملک کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں حزب اختلاف کے بغیر حکومت میں رہی ہیں چاھے حزب اختلاف کے ممبران کی تعداد کتنی ہی قلیل رہی ہو.
حکومتوں کی ذمہ داری ھے کہ وہ عوام کی ضروریات کے مطابق پالیسی پروگرام بنائیں اور ملک کی سول سوسائٹی کے ذمہ دار افراد کی ذمہ داری ھے کہ وہ حکومتی پالیسیوں کا جائزہ لیتے رہیں اور اگر پالیسی میں کسی بھی اصلاح کی ضرورت ہو تو اس سے حکومت کو واقف کرائیں.
یوں تو ملک کے سبھی بڑے شہروں میں حقوق انسانی پر کام کرنے والے افراد اور ادارے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں. مختلف ادارے ماحولیاتی نظام کی بہتری، آبی وسائل وغیرہ پر اپنے اپنے مقام پر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے کوشاں رہتے ہیں مگر اس ملک نے عوامی تحریک کے نام پر جے پی موومنٹ بھی دیکھا ھے اور اس کے اثرات آج بھی محسوس کئے جاتے ہیں. کچھ خاص معاملات میں عوام نے بھی معاشرے کی بہتری کے لیے حکومتوں اور عدلیہ کو متوجہ کیا ھے جس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں. تامل ناڈو میں ایم جی رام چندرن کے دور حکومت میں مدراس (چنئی) کے معروف صحافی چُو راما سوامی کی سربراہی میں تمل ناڈو اسمبلی کا گھیراؤ کر کے حکومت سے یومیہ لاٹری پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کو فوری طور پر تمل ناڈو حکومت نے منظور کر کے یومیہ لاٹری پر پابندی عائد کر دی تھی. اس کے نتیجے میں معاشی طور پر کمزور طبقات کو اس ظالمانہ یومیہ لاٹری سے نجات حاصل ہوئی تھی. اسی طرح محکمہ پولیس سے وابستہ رھے پرکاش سنگھ( آئی پی ایس) بارڈر سیکیورٹی فورس میں ڈائریکٹر جنرل رہنے کے علاوہ اتر پردیش اور آسام کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کے عہدوں پر بھی فائز رہنے کے بعد 1996 میں ریٹائر ہوئے تو فوراً ہی سپریم کورٹ میں اپیل کی کہ میں اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں ضروری سمجھتا ہوں کہ دور غلامی کے پولیس قانون میں اصلاح کر کے پولیس قانون کو سیاسی دباؤ سے نکالنے اور عوام کے تئیں جوابدہ بنانے کے لئے ضروری ترمیمات کی جائیں. سپریم کورٹ میں دس سال تک مقدمہ کی کارروائی کے بعد 2006 میں فیصلہ سنایا گیا کہ ملک کے سبھی صوبوں اور مرکز کے تحت علاقوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پولیس قانون میں اصلاح کی جائے. افسوس کہ چند صوبوں میں ہی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیا گیا ھے وہ بھی جزوی طور پر.
پرکاش سنگھ نے کم عمر بچوں اور طلباء کو فحاشی خصوصاً سائبر کیفوں کے ذریعے پھیل رہی برائیوں سے بچانے کے لئے دہلی ہائی کورٹ میں قانون بنانے کا مطالبہ کیا تھا مگر دہلی ہائی کورٹ نے نوجوان نسل کے لئے کی گئی اتنی حساس اپیل کو رد کر دیا تھا.
حکومتیں پہلے اپنے ملک کے عوام کا اعتماد ہوا کرتی تھیں اور عوام کو یقین رہتا تھا کہ ان کی ضروریات زندگی اور دیگر معاملات میں ان کی حکومت اپنے وسائل کی بنیاد پر جو بھی پالیسی بنائے گی وہ عوام کے مفادات کے لیے ہی ہوگی.
یہ تو ہوتا آیا ھے کہ عوام کے سبھی طبقات کو یکساں وسائل حاصل نہیں رھے مگر حکومتیں ایسا کوئی کام نہیں کرتی تھیں جس سے عوام ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہو جائیں.
1975 میں ایمرجنسی لگائے جانے کے ساتھ ہی ملکی سلامتی اور تحفظ کے نام پر نئے قوانین بنانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ ہنوز نئے نئے نام سے سامنے آتا رھا ھے. داخلی سلامتی کے لئے بنائے گئے قوانین کے تحت آج بھی ملک کی جیلوں میں بڑی تعداد میں لوگ بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں.
ان قوانین کے علاوہ ٹیکس کے زمرے میں بھی مختلف قسم کے ٹیکس قوانین بنتے رھے ہیں جو کہ ٹیکس دہندگان کے لئے پریشانی کا سبب بنتے رہتے ہیں. اسی طرح تعلیمی اداروں کے لئے بھی قانون سازی کی جاتی رہی ھے. کسانوں کے لئے قانون سازی کی گئی تھی مگر کسانوں کی ناراضگی کی وجہ سے فیصلہ واپس لیا گیا. مسلم اوقاف کے لئے بھی جو نیا قانون بنایا گیا ھے وہ نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ سبھی انصاف پسند لوگوں کے لئے بھی تشویش کا سبب بنا ہوا ھے.
حکومت کے لئے ضروری ھے کہ وہ ملک کے مختلف شعبوں کو منظم اور بہتر بنانے کے لیے قانون میں تبدیلی کرے مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ھے کہ ملک کے عوام کے مذہبی معاملات، کیفیت، طرزِ زندگی وغیرہ کو سامنے رکھ کر ہی کوئی نئی پالیسی یا قانون بنایا جائے.
تازہ معاملہ ایس آئی آر یعنی ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی کا ھے.
دنیا کے تمام ملکوں کے لئے یہ جاننا انتہائی ضروری ھے کہ اس کے ملک میں عوام کی تعداد اور کیفیت کیا ھے کیوں کہ ان اعدادوشمار کی بنیاد پر ہی سبھی شعبہ جات کے لئے ضروری فیصلے کئے جاتے ہیں.
2011 کی مردم شماری کے لیے 2010 میں سروے کرایا گیا تھا. اس کے دس سال بعد 2021 کے لئے مردم شماری کا کام ہونا چاہیے تھا مگر شہریت کے لئے نئے قانون بنانے کی کوشش اس میں بہت بڑی رکاوٹ بن گئی ھے. اقتدار اور حزب اختلاف کے لئے یہ اپنی سیاست کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بن گیا ھے. جس کے لئے اولین ذمہ داری حکومت کی ہی ھے کہ وہ ملک کے اس انتہائی اہم کام کو انجام دینے کے لئے ایسا لائحہ عمل تیار کرائے جس سے کسی کو بھی شک و شبہات میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے. اس بات کو سمجھنے کے لئے 2010 میں کئے جانے والے مردم شماری سروے کے ایک واقعہ کا ذکر کرنا مناسب ہی نہیں بلکہ شاید مفید ہوگا.
مردم شماری کا سروے بہت زور شور سے جاری تھا مگر مستقل اطلاعات مل رہی تھیں کہ سروے کرنے والوں کے پاس جو سوالنامہ ھے اس میں کچھ سوالات ایسے بھی ہیں جن کو سمجھنا ہی مشکل ھے تو جواب کیسے دیا جائے گا.
اس تعلق سے مردم شُماری ڈائریکٹوریٹ، لکھنؤ جا کر ڈائریکٹر سے گزارش کی گئی کہ آپ خود یا اپنے آفس کے دیگر ذمہ داران کے ساتھ ایک ورکشاپ کرا دیجئے جس میں شہر کے دانشور حضرات کی موجودگی میں مردم شماری سروے سوالات کو سمجھ لیا جائے. انھوں نے ایک تاریخ دے دی اس تاریخ کو مرحوم کاظمی صاحب، سابق ایڈوکیٹ جنرل اتر پردیش کی موجودگی میں ورکشاپ کا انعقاد کرایا گیا. جس میں مردم شماری ڈائریکٹوریٹ کے جوائنٹ ڈائریکٹر کی سربراہی میں ایک ٹیم نے شرکت کی. جوائنٹ ڈائریکٹر نے حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے ورکشاپ کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ سرکار کے اس قسم کے کاموں کو سمجھنے اور کامیاب بنانے کے لئے اس طرح کی کوششوں کی بہت ضرورت ھے. اس کے بعد پاور پریزینٹیشن کے ذریعے سارے سوالات اور سروے کا طریقہ کار بتایا گیا.
اس کے بعد لوگوں کو سوالات کا موقع دیا گیا، سوالات نے جوائنٹ ڈائریکٹر اور ان کی ٹیم کے چہروں پر تشویش پیدا کرنا شروع کر دی، شروع میں تو ان لوگوں نے ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیا مگر جب محسوس کیا کہ ورکشاپ میں موجود لوگوں کو مطمئن کرنا آسان کام نہیں ھے تو پھر نرم لہجے میں سمجھانے کی کوشش شروع ہوئی مگر سوالات میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا اور پھر وہ لمحہ آیا جو وہاں موجود سبھی لوگوں کو حیرت میں ڈالنے والا تھا، اچانک جوائنٹ ڈائریکٹر کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر کہا کہ آپ لوگ مجھے معاف کریں، میں ان سوالات کے جوابات دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں اور شاید ڈائریکٹوریٹ کا کوئی بھی ذمہ دار ان سوالات کا جواب نہیں دے سکے گا. ہمیں آج پہلی بار معلوم ہوا ھے کہ سوالات کو تیار کرنے کا طریقہ کار درست نہیں ھے مگر میں کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں سوائے اس کے کہ آپ لوگوں کے سوالات اور مشوروں کو اپنے ہیڈ کوارٹر دہلی بھیج دوں اور آپ لوگ یقین رکھیں کہ اس ورکشاپ کی تفصیلی رپورٹ مردم شماری ڈائریکٹوریٹ کے ہیڈ کوارٹر اور اس سے متعلق حکومت کے دیگر ذمہ داران کو بھیجی جائے گی.
حکومت کی پالیسی، پروگرام وغیرہ کو بہتر انداز میں عمل میں لانے کے لئے بہت ضروری ھے کہ سول سوسائٹی کے ساتھ حکومت کے متعلقہ اداروں کے سربراہان وغیرہ کا تبادلہ خیال ہوتا رھے تاکہ حکومت کی پالیسیوں کا عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو.
ایس آئی آر کے لئے بھی ضروری ھے کہ عوام کے نزدیک یہ ایک انتہائی اہم اور ضروری کام ہو نا کہ معاشرے میں انتشار پھیلانے کا سبب مانا جائے.
پچھلے دنوں بہار میں غیر ملکیوں کی تلاش کے لئے بہت بڑے پیمانے پر ایس آئی آر کی مہم چلائی گئی تھی مگر اپنی شہریت ثابت نہ کر پانے والے لوگوں کی تعداد چار سو کے اندر ہی رہی جو کہ دلیل ھے کہ غیر ملکی افراد کی تلاش اور ان کی ملک سے بے دخلی کی وجہ صرف سیاسی مقاصد کے لیے ہی ھے.
حکومت اور سول سوسائٹی کی ذمہ داری ھے کہ وہ کھلے دل و دماغ کے ساتھ ایس آئی آر کے معاملات کو انجام دینے کی کوشش کریں اور ملک کے وسائل اور عوام کی ضروریات میں تال میل قائم کرانے میں اپنا اپنا رول ادا کریں تاکہ ایک مہذب اور باوقار ملکی معاشرہ وجود پا سکے.
ملک کے جمہوری نظام کو مستحکم رکھنے کے لئے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی کارکردگی کا صاف ستھرا اور بلا کسی بھید بھاؤ اور دباؤ کے ہونا انتہائی ضروری ھے. الیکشن کمیشن کے ذمہ داران کو اپنے عہدوں کا پاس و لحاظ رکھنا ہی ملک کے مفاد میں ھے.











