تحریر:قاسم سید
شاید مسلم پرسنل لا بورڈ نے حالات کی نزاکت ،یوسی سی کے بڑھتے قدم ،مسلم طلاق یافتہ خاتون کی کفالت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے دوررس اثرات اور مسلمانوں کی لگاتار سیاسی طور پر کم ہوتی طاقت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے موقف میں بڑا یوٹرن لیا ہے ۔قارئین کو یاد ہوگا کہ مسلم قیادت نے گزشتہ دس سال سے مودی سرکار کے ساتھ مسائل پر ملاقات اور بات چیت کے دروازے از خود بند کردئے تھے- مختلف حلقوں کی طرف سے ڈائیلاگ کے مشورے کو ہمیشہ سختی سے مستر کرتی رہی اس میں بورڈ بھی شامل ہے مگر اب اس نےفیصلہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے شرعی امور میں بڑھتی مخالفت پر مرکزی حکومت کے ساتھ اپوزیشن سے بھی ڈائیلاگ کرکے اپنا اسٹینڈ رکھے گا ۔امید ہے کہ اس سے دیگر مسلم مذہبی جماعتوں اور سیاسی گروہوں کے لئے بھی راستہ کھل جائے گا جو دل میں ملاقات کی تو خواہش رکھتے تھےمگر مودی سرکار کے سخت رویہ اور مسلم عوام کے موڈ کو دیکھتے ہوئے ہمت نہیں کرپاتے تھے ۔پہلے وہ خبر ملاحظہ کریں جو انڈین ایکسپریس اور جن ستہ میں اس حوالہ سے شائع ہوئی ہے
“ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈنے اتوار کو ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ مسلم طلاق یافتہ خواتین کی دیکھ بھال پر سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ "اسلامی قانون (شریعت) کے خلاف ہے۔” بورڈ نے اپنے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کو اختیار دیا کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو واپس لینے کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات (قانونی، آئینی اور جمہوری) شروع کریں۔ بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے انڈین ایکسپریس کو بتایا، "بورڈ نے اس معاملے پر مرکزی حکومت اور اپوزیشن سے بات کرنے کا بھی فیصلہ کیاہے”
یکساں سول کوڈ یعنی یو سی سی پر ڈاکٹر الیاس نے کہا، "بورڈ کی قانونی ٹیم نے ایک عرضی تیار کی ہے اور اسے اس مہینے کے آخر میں داخل کیا جائے گا۔”
اس خبر کی مزید وضاحت کے لئے جب بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول سے روزنامہ خبریں نے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہاں یہ سچ ہے بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مرکزی حکومت سے گفتگو کرے گا کیونکہ یہ این ڈی اے سرکار ہے کیا اس میں وزیراعظم مودی اور امت شاہ وغیرہ بھی شامل ہیں ؟ان کا کہنا تھا کہ جی ان کے علاوہ چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار وغیرہ سے بھی ملنے کا ارادہ ہے کیونکہ وہ بھی حکومت کا حصہ ہیں – ان سے “ہر جمہوری طریقہ اختیار کرنے “ والے بیان پر روشنی ڈالنے کو کہا تو انہوں نے بتایا کہ جمہوریت میں جو بھی ممکن طریقہ اپنی بات رکھنے کا ہے اس کو آزمایا جائے گا جیسے احتجاج کرنا ،دھرنا،مظاہرہ ،ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ مسلم خواتین کو آگے لائیں گے کیونکہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مسلم عورتوں نے ان فیصلوں کا خیر مقدم کیا ہے انہوں نے یاد دلایا کہ پہلے بھی بورڈ کی رہنمائی میں لاکھوں مسلم خواتین یوسی سی کی مخالفت کے لئے سڑکوں پر اتری تھیں کروڑوں عورتوں نے اس کی مخالفت میں میمورنڈم دیا تھا ۔
بہرحال لوگوں کا کہنا ہے کہ دیر آید درست آید لیکن دس سال یعنی مودی کے دو ٹرم ڈائیلاگ کرنے کے سوال پر سخت موقف رکھنے کا کیا جواز تھا اور اب تالے کھولنے کی مجبوری کیا ہے کیا انہیں امید تھی کہ کبھی نہ کبھی اپوزیشن کی سرکار آئےگی اور اس بار تو فقیہہ العصر بورڈ کے حضرت صدر محترم مولاناخالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے کانگریس کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل بھی کردی تھی جو شاید بورڈ کے دائرہ کار سے باہر تھا مگر پھر بھی انہوں نے چانس لیا -یہ صحیح تھا یا غلط یہ تو بورڈ کے صاحبان عقل وفہم جانیں مگر یہ بات قابل اطمینا ن ہے کہ سرکار سے ملنے کا فیصلہ اتفاق رائے سے کیا گیا بورڈ کے جن ارکان عظام کی سرکار سے ڈائیلاگ کی بات پر بھنویں تن جاتی تھیں ان کے تیور بھی حالات کے جبر اور سرکار کی ٹیڑھی نگاہوں نے ڈھیلے کردئے ہیں ۔اس وقت جو لوگ ڈائیلاگ کی وکالت کرتے تھے ان کو بلا لحاظ سرکا اور بی جے پی کا ایجنٹ کہہ دیا جاتا تھا مگر بورڈ کے جرات مندانہ فیصلے پر اس طرح کی نامعقولیت کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہئے ۔موقف کی تبدیلی مجبوری ہو یا ضرورت ،نئی حکمت عملی ہو یا نئی ڈگر کو آزمانے کا تجربہ ،کچھ بھی ہودس سال کی تاخیر سے لیا گیا مثبت فیصلہ کیا ہمیں امیدوں کی نئی روشنی کی طرف لے جائے گا ۔شاید ہاں یا شاید نہیں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ویسے یہ ہماری روایت رہی ہے کہ صحیح ،اچھے فیصلے لینے میں تذبذب و تامل سے کام لیتے رہے ہیں ۔وقت کا پہہیہ تیزی سے گھوم رہا ہے لاکھ سر پٹک لیں اسے الٹا نہیں کرسکتے دریا میں بہت پانی بہہ چکا ہے – بورڈ کی پر مغز قیادت کو معلوم ہے کہ یہ 1985 نہیں اور نہ ہی بورڈ 1985 جیسی قیادت اور طاقت رکھتا ہے ۔مایوسی کفر ہے امید میں امکانات ہیں ۔ڈائیلاگ سے ہی راستہ نکلتا ہے عدالتی فیصلے اور سرکاری اقدامات کامن سول کوڈ کی طرف بڑھتے قدم ہیں بورڈ کو سنگین چیلنج سے نمٹنے کے راستے ڈھونڈنے ہوں گے ڈائیلاگ پر آمادگی اس کا اظہار ہے