عبدالسلام عاصم
مہذب دنیا کی انکھوں کے سامنے غزہ پر خوفناک اسرائیلی آتشیں حملے اور حماس کی راکٹ باری کا سلسلہ زائد از ایک ہفتے سے جاری ہے۔ روزانہ لاشیں گر رہی ہیں جن کے تعداد بظاہر سو دوسو کے درمیان ہے لیکن بہ باطن ہزاروں زندگیاں تباہ ہو چکی ہیں۔
امریکہ، سعودی عرب، یورپ، ایران، روس اور ترکی کے علاؤہ ایسے تمام ممالک اورحلقے جو متاثرہ خطے میں کسی بھی اختلاف کو انسانی جانوں کے بدترین زیاں سے بچا سکتے ہیں، وہ مستقل اپنے محدود مفادات کو آگے بڑھانے یا بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ آج سعودی عرب کے طلب کردہ اجلاس میں کیا کچھ ہوا، اس پر لکھنا کالم ضائع کرنے کے برابر ہوگا اس لئے بہتر ہے کہ اسرائیل اور حماس سے براہ راست سوالات کئے جائیں۔
اسرائیل کی صیہونی حکومت سے یہ پوچھا جائے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی چالیس لاکھ کی آبادی والے متعلقہ خطے کے ہر فلسطینی شہری کا نام و نشان مٹا کر یا انہیں وہاں سے بے دخل کر کے اُس جگہ یہودی آبادکاری کی جا سکتی ہے! اور کیاکسی ہمسائیگی کے بغیرایک صیہونی ملک کا حتمی قیام عمل میں لایا جا سکتاہے!!
شدت پسند حماس سے بھی یہ سوال کیا جائے کہ کیا اُس خطے میں تقریباً نوے لاکھ کی اسرائیلی آبادی کو کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا سکتا ہے!
اور کیا فلسطینی مقتدرہ اُس بازیابی پر اتفاق سے پھر جانے کی متحمل ہے جس کے لئے تنظیم آزادی فلسطین کے رہنمانے جدو جہد کی تھی۔
جو منظر نامہ سامنے ہے اس کے کینوس پر ایک طرف اسرائیل سائنسی علم کا پوری طاقت کے ساتھ منفی استحصال کر رہا ہے دوسری جانب حماس مذہبی ہوش سے کام لینے کے بجائے جوش میں آ کر اُس جان کی بازی لگائے ہوئے جس کا لازمی استعمال مثبت حکمت کیلئے ہونا چاہئے۔
ایسے میں دونوں کیا یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ وہ کب تک کہیں زیادہ، کہیں کم انسانی جانوں کے بے دریغ زیاں پر ایک دوسرے سے نبرد آزما رہیں گے!کیا اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہوجو یہودی انتہا پسندی کی علامت بن کر ابھرے ہیں، یہ بتانے کی ہمت کریں گے کہ انہوں نے ایک ”یہودی مملکت” کا جو نعرہ لگارکھا ہے، اُس کا قیام کتنے لاکھ انسانوں کی لاشوں پر عمل میں آئے گا!! متاثرہ خطے کی زندگیاں کیا اسی کام کیلئے رہ گئی ہیں کہ اُنہیں کسی یہودی مملکت یا اسلامی مملکت کے غیر انسانی تصور کی نذر ہونے کیلئے رات دن پروان چڑھایا جائے اور پھر قربان کر دیا جائے۔
غزہ پٹی میں تا دم تحریر مسلسل ساتویں روز بھی اسرائیلی بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ میڈیا کے مطابق پچھلے پہر فضائی حملوں میں مزید چار فلسطینی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔بظاہر نشانہ بند علاقے میں مزید 2 رہائشی عمارات ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملوں میں غزہ میں حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار کے گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی میزائلوں کی زد میں پناہ گزینوں کا ایک کیمپ کو بھی آیا ہے جس میں کوئی آٹھ معصوم بچوں سمیت 10 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔اس سے پہلے محض ایک گھنٹے کی وارننگ کے ساتھ ایک رہائشی عمارت کو مسمار کردیا گیا تھا جس میں ایسو سی ایٹیڈ پریس اور الجزیرہ سمیت ذرائع ابلاغ کے دیگر اداروں کے دفاتر ہوا کرتے تھے۔حماس کی راکٹ باری بھی اُدھر کسی متحارب کے بجائے عام زندگیوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
حالات کے دگر گوں موڑ پر بدقسمتی سے موت کے کھیل کے ناظرین زیادہ ہیں۔ ان میں سے کچھ اسرائیل کی ہر کارروائی کو حق بجانب قرار دے رہے ہیں اور کچھ فلسطینیوں پر ظلم کے خلاف پر شور احتجاج سے شو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ، دیگر عالمی مجالس اور تنظیم اسلامی کانفرنس میں بظاہر سبھی اختلافات کو مذاکرات کی میز پر رلانے کے وکیل ہیں لیکن ان وکیلوں کی ڈگریاں کتنی جعلی ہیں یہ مشرق وسطیٰ کے حالات کھل کر بتا رہے ہیں۔
جہاں تک اسرائیل کے صیہونی حکمرانوں کے جبر اور عالم فلسطینیوں کی حقیقی مظلومیت کا تعلق ہے تو دونوں نہ ایک دن کی پیداوار ہیں نہ ہی دونوں کے اِس تکلیف دہ ربط کو آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے دونوں طرف جوش سے زیادہ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔دونوں کو از سر نو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ گذشتہ صدی کی آخری دہائی میں اسرائیل اور تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے درمیان جو اوسلو معاہدہ ہوا تھا، وہ اب تک عمل میں کیوں نہیں آ سکا۔ دنیا جانتی ہے اور اس بات کے دستاویزات بھی موجود ہیں کہ اِس معاہدے میں ذو مملکتی حل کے رُخ پر ایک طرف جہاں اسرائیل نے فلسطین کے وجود کو قبول کرلیا تھا وہیں فلسطین نے اسرائیل کے وجود کو مان لیاتھا۔
سال 1993 کے اس معاہدے سے اقوام عالم کو زبردست امیدیں بندھ گئی تھیں۔ اس معاہدے کے بعد اسرائیلی انتطامیہ اور پی ایل او کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر رابطے قائم رہے تاکہ منزل کے رُخ پر پیش قدمی جاری رہے۔ دونوں طرف کے انتہا پسند حلقے اس معاہدے کے خلاف ضرور تھے لیکن وہ کھل کر سامنے نہیں آرہے تھے۔اس طرح گاڑی محتاط طور آگے بڑھی تو 1995 میں اسرائیل اور پی ایل او کی ایک نشست میں یہ طے پایا کہ جس طرح اسرائیل کی ایک انتظامیہ ہے اُسی طرح فلسطینی امور کیلئے فلسطینیوں کا بھی ایک مقتدرہ ہونا چاہئے، موجودہ فلسطینی اٹھاریٹی اسی اتفاق رائے سے قائم ہوئی۔ غزہ میں موجودہ حماس کی سابقہ قیادت بھی اس معاہدے اور فلسطینی مقتدرہ کے قیام تک کے فیصلوں میں شریک رہی۔
اوسلو معاہدے کوایک طرف جہاں دنیابھر کی حمایت اور عرب اور غیر عرب مسلم ملکوں کے اعتدال پسندوں کی تمام تر تائید حاصل تھی، وہیں د درونِ اسرائیل و فلسطین اِس معاہدے کو شدت پسندوں کی سخت مخالفت کا بھی سامنا تھا، اس لئے اُس وقت کی اسرائیلی انتظامیہ اور فلسطینی مقتدرہ نے طے کیا تھا کہ مرحلہ وار منزل کی طرف بڑھا جائے گا۔ہر چند کہ اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل کو اقوام متحدہ کی قرارداد کی رو سے 1967 کی جنگ کے دوران قبضہ میں آئے فلسطینی علاقے چھوڑ کر اپنی پہلے والی پوزیشن پر چلا جانا تھا لیکن اسرائیل کے یہودی انتہا پسند اور فلسطین کے اسلامی انتہاپسند دونوں ہی بالترتیب”پیچھے ہٹنے“ اور”محدود بازیابی“ سے متفق نہیں تھے۔
بالفرض معاہدہ پر زبانی خلل کے باوجود عمل جاری رہتا تو آج مسجداقصیٰ، دیوار دریہ اور مسیحی کلیسہ سمیت پورا مشرقی یروشلم بالکل اُسی طرح فلسطینی مقتدرہ کے زیر انتظام آجاتاجس طرح ابھی پورا علاقہ اسرائیلی انتظامیہ کے تحت ہے۔اس طرح ممکن ہے تنازع ختم ہو جاتا یا تذکرے کی حد تک محدود رہ جاتا۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ یہودی انتہا پسند پیچھے ہٹنے اور فلسطینی انتہاپسند محدود بازیابی کیلئے تیار نہیں تھے۔ بدقسمتی سے مرحلہ وار دونوں انتہا پسند حلقوں کی بیرونی تائید بھی بڑھتی گئی۔
موجودہ منظر نامے میں نیتن یاہو حکومت اور حماس کے پاس صرف انتہاپسندانہ حل موجود ہیں جو دونوں طرف انسانی جانوں کی زبردست قربانی سے بھی انجام تک پہنچے گے یا نہیں یہ بتانا مشکل ہے۔ البتہ اس خوف سے انکارنہیں کیا جا سکتا کہ متعلقہ خطے کو ابھی کچھ دن اور تشدد سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اوسلومعاہدہ کرنے والوں (اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن اور پی ایل او لیڈر یاسر عرفات)کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہی مرنا پڑا تھا۔رابن کو یہودی انتہا پسند ایگال عمیر نے قتل کردیا تھا اور عرفات کی بظاہر طبعی موت کی وجہ بھی زہر بتائی جاتی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ متاثرہ خطے کے موجودہ ذمہ داران ایک بار پھر کسی اوسلو معاہدے تک پہنچتے ہیں یا جنگ زدہ خطے میں کسی خلائی مخلوق کیلئے لاکھوں انسانوں کی لاشوں پر کوئی یہودی یا اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آتاہے۔دونوں طرف کے انتہا پسند ہرگز ہرگزیہودیت یا اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے۔وہ صرف انتہا پسند ہیں جنہیں اپنی سوچ ”حق“اور دوسرے کی سوچ”باطل“ نظر آتی ہے۔