ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
وہ شخص کتنا بڑا بے وقوف ہوگا جو آزاد ہو اور کھلی فضا میں سانس لے رہا ہو ، لیکن وہ اپنی مرضی سے اپنے ہاتھوں کو جکڑ لے ، اپنے گلے میں طوق اور پیروں میں بیڑیاں ڈال لے اور اپنے لیے قیدِ تنہائی پسند کرلے ؟!
وہ شخص کتنا بڑا بے وقوف ہوگا جس کے چلنے کے لیے ہموار راستہ ہو ، لیکن وہ اسے چھوڑ کر اُوبڑ کھابڑ اور جھاڑ جھنکاڑ والے راستے پر چلنے لگے، جس سے اس کے پیر زخمی اور خون آلود ہوجائیں ؟؟!!
وہ شخص کتنا بڑا بے وقوف ہوگا جس پر ہلکا بار ڈالا گیا ہو ، لیکن وہ اپنی مرضی سے اپنے اوپر بھاری بوجھ لاد لے ، جس سے اس کی کمر دُہری ہوجائے اور اسے چلنے میں دشواری ہو ؟؟؟!!!
ٹھیک یہی رویّہ ہم مسلمانوں نے طلاق کے معاملے میں اختیار کر رکھا ہے _ اسلام کا نظامِ طلاق ان کے لیے رحمت تھا ، لیکن انھوں نے اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اسے زحمت بنالیا ہے _۔
نکاح ایک پاکیزہ اور دینی قدروں کا حامل سماجی معاہدہ (Social Contract) ہے اور طلاق اس معاہدہ کو ختم کرنے کا طریقہ _ طلاق عام حالات میں ناپسندیدہ ، لیکن ایک ضرورت ہے _ اسی وجہ سے جن مذاہب میں طلاق کا آپشن نہیں تھا وہ بھی اس کے بارے میں قانون سازی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں _۔
اسلام نکاح سے قبل لڑکی اور لڑکے دونوں کے سرپرستوں کو حق دیتا ہے کہ دوسرے فریق کے بارے میں خوب تحقیق کرلیں _ نکاح کے بعد وہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرنے کی تاکید کرتا ہے _ اگر ان کے درمیان عدمِ موافقت کے آثار ظاہر ہوں تو وہ کہتا ہے کہ پہلے زوجین خود ہی اپنے اختلافات دور کرنے کی کوشش کریں ، نہ کام یاب ہوپائیں تو دونوں کے خاندان والے مل جل کر مسئلے کو حل کرنے کی تدابیر اختیار کریں _ وہ بھی کام یاب نہ ہوپائیں اور واضح ہوجائے کہ شدید اختلافات کی وجہ سے ان کا خوش گوار ازدواجی زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے تو اسلام انہیں حق دیتا ہے کہ وہ علیٰحدگی اختیار کرلیں اور الگ ہوکر چاہیں تو نئی ازدواجی زندگی کی شروعات کریں _
علیٰحدگی کے لیے اسلامی شریعت کا بتایا ہوا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ شوہر طلاق دے دے ، بس ایک طلاق _ اسے طلاق احسن کہتے ہیں _ اس میں بھی یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ طلاق اس وقت دی جائے جب عورت پاکی کی حالت میں ہو اور شوہر نے اس حالت میں اس سے مباشرت نہ کی ہو _ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عورت عدّت (3 ماہ واری یا 3 ماہ) شوہر کے گھر میں ہی رہتے ہوئے گزارے _ اس دوران میں وہ زیب و زینت اختیار کرسکتی ہے _ اس طریقے کو اختیار کرنے کے بہت سے فائدے اور حکمتیں ہیں :
- – اس مدّت میں بیوی اور شوہر دونوں کو اپنے رویّوں پر غور کرنے کا موقع ملے گا ۔
- – عورت کے زیب و زینت اختیار کرنے سے شوہر کا اس کی جانب میلان ہوگا ۔
*- عورت کے پاکی کی حالت میں ہونے کی وجہ سے شوہر اس سے مباشرت کرسکتا ہے ۔
*- شوہر عورت کی پاکی کی اس حالت میں طلاق دے جس میں مباشرت نہ کی ہو ، یہ شرط اس لیے لگائی گئی کہ اس صورت میں اس کا بیوی کی طرف زیادہ میلان ہوگا۔
*- مباشرت رجوع کا عملی اظہار ہے _ شوہر زبان سے ایک لفظ نہ کہے ، بس مباشرت کرلے ، رجوع ہوگیا ۔
*- شوہر رجوع کا زبانی اظہار بھی کرسکتا ہے۔
*- عدت کے دوران میں عورت شوہر کی طرف سے نان و نفقہ کی مستحق ہوگی ۔ - – شوہر نے رجوع کرلیا تو دونوں پھر میاں بیوی کی طرح ساتھ میں رہنے لگیں گے _ کچھ عرصہ بعد پھر دونوں کے درمیان اختلافات سر ابھارنے لگیں ، یہاں تک کہ طلاق کی نوبت آجائے تو اس کے لیے پھر وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا ۔
*- اسلامی شریعت نے شوہر کو یہ موقع دو بار دیا ہے _ اگر اس نے تیسری مرتبہ طلاق دی تو عورت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائے گا _ ( البقرۃ : 229)
*- عورت کی عدّت پوری ہوگئی اور شوہر نے رجوع نہیں کیا تو دونوں آزاد ہوجائیں گے ، ان کا ازدواجی رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا _ اب مرد اپنا دوسرا نکاح کرسکتا ہے اور عورت کا ولی بھی اس کا نکاح کہیں اور کرسکتا ہے ۔
*- طلاق کے بعد دونوں کا دوسرا نکاح نہیں ہوسکا ، وہ تنہا زندگی گزارتے رہے _ کچھ عرصے کے بعد انھوں نے خود سوچا یا ان کے اہلِ خاندان نے ترغیب دلائی اور مشورہ دیا کہ انہیں اپنے اختلافات بھلا کر دوبارہ میاں بیوی بن کر رہنا چاہیے تو اس کی گنجائش ہے _ ان کا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے _۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا منشا یہ ہے کہ طلاق کا جو حق شوہر کو دیا گیا ہے اسے وہ الگ الگ مواقع پر استعمال کرے _ ایک وقت میں صرف ایک ہی طلاق دے _ یہ بات قرینِ عقل بھی ہے _ آدمی کسی چیز کو اتنا ہی استعمال کرتا ہے جتنے سے اس کی ضرورت پوری ہوجائے _ اگر اس کی بھوک ایک دو روٹی سے ختم ہوجائے تو وہ دس بیس روٹیاں نہیں کھاتا _ اگر اس کی پیاس ایک دو گلاس پانی سے بجھ جائے تو وہ پورا جگ منھ میں نہیں انڈیل لیتا _ اسی طرح اگر محض ایک طلاق سے عورت سے ہمیشہ کے لیے علیٰحدگی ہوسکتی ہے تو بلا ضرورت تین طلاق کیوں دی جائے؟!
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سماج میں اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی بنا پر عوام کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ازدواجی رشتہ ختم کرنے کے لیے 3 بار طلاق دینا ضروری ہے _ طلاق کے پیپر کسی وکیل سے بنوائے جاتے ہیں تو اگر اس سے کچھ نہ کہا جائے تو بھی وہ 3 طلاق دینے کی بات لکھ دیتا ہے _ 3 طلاق دینے کا مطلب یہ ہے کہ طلاق دینے والے نے اپنے پیروں پر اپنے ہاتھ سے کلہاڑی مار لی ہے اور شریعت کی دی ہوئی آسانیوں سے خود کو محروم کرلیا ہے _۔
میرے پاس بہت سے نوجوان منھ بسورے ہوئے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیوی سے میرا جھگڑا ہوگیا تھا _ میں نے غصے میں 3 طلاق دے دی _ اب پچھتاوا ہے _ بیوی بھی ساتھ میں رہنا چاہتی ہے _ کوئی صورت بتائیے _ میں ان سے دریافت کرتا ہوں : غصے کے اظہار کے بہت سے طریقے ہوسکتے تھے : بیوی کو ڈانٹتے _ دھمکاتے _ اسے بُرا بھلا کہتے _ اسے گھر سے نکال دیتے _ اسے ایک دو تھپّڑ مار دیتے _ اس کی ڈنڈے سے پٹائی کرتے _ طلاق دینا تھا تو ایک یا دو طلاق دیتے _ آخر آپ نے ایک سانس میں 3 طلاق دینا ہی کیوں ضروری سمجھا ؟ میرے اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا _۔
دانش مندی اسی میں ہے کہ اسلام نے طلاق کا جو انتہائی آسان طریقہ بتایا ہے اسے اختیار کیا جائے _ اس میں وقتِ ضرورت دوبارہ نکاح کی گنجائش ہے _ ویسے بھی حکومتِ ہند نے دو برس قبل ایک سانس میں 3 طلاق دینے کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیا ہے اور اس کی سزا 3 برس قید مقرّر کی ہے _ اب جن لوگوں کو اللہ کا خوف نہیں ہے وہ کم از کم حکومت کی سزا سے بچنے کے لیے ہی بیک وقت 3 طلاق دینے سے گریز کریں گے _۔