ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
عصر حاضر میں خاندانی نظام کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ طلاق کےاعداد و شمار میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے،ہمارے ملک ہندوستان میں چونکہ طلاق کو مذہب کا داخلی معاملہ تصور کیا جاتا ہے اس وجہ سے ہندو، بدھ، جین اور سکھ مذاہب میں طلاق “ہندو میریج ایکٹ ۱۹۵۵” کے تحت، نیز مسلمانوں کے لئے Dissolution of Muslim Marriages Act, 1939 اور پارسیوں کے لئے “پارسی میریج اینڈ ڈائیوورس ایکٹ ۱۹۳۶، جب کہ عیسائی مذہب کے لئے “انڈین ڈائیوورس ایکٹ ۱۸۶۹ کے تحت طلاق کی قانونی تجویز موجود ہیں۔ تمام ہی سول اور بین المذاہب شادیاں اور طلاق ہمارے ملک کے الگ قانون “اسپیشل میریج ایکٹ ۱۹۵۵” کے ماتحت ہوتی ہیں۔
فیملی کورٹس میں مقدمات کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ داخل مقدمات کا جائزہ لینےپر تو معلوم ہو تا ہیکہ عدالت میں زیرالتوا مقدمات طلاق، خلع، سامان جہیز کی واپسی ، نان و نفقہ ، بچوں کی کسٹڈی وغیرہ کے ہیں۔ آج معاشرے میں یہ صورت حال ہماری خصوصی توجہ کی متقاضی ہے کیونکہطلاق عموما دو ہی صورتوں میں ہوتی ہے۔
ایک شکل یہ کہ جب شوہربیوی دونوں کا ایک ساتھ رہنا ممکن نہ ہو، اور دونوں باہمی رضامندی سے طلاق لینا چاہتے ہیں تو وہ راضی نامہ کے ساتھ عدالت میں طلاق کی عرضداشت داخل کرتے ہیں، عدالت کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اب شادی کے رشتے میں مربوط رہنا ممکن نہیں ہے، نیز دونوں ہی ایک یا دو سال سے علیحدہ رہ رہے ہیں، بچوں کی کفالت و کسٹڈی وغیرہ کی شرائط پر دونوں کی رضامندی ہے تو عدالت میں معمولی کاروائی و پروسیجر کے ساتھ طلاق کی کاروائی اپنے انجام تک پہنچ جاتی ہے۔ یا پھر طلاق حاصل کرنے کے لئے برسہا برس عدالت کے چکر کاٹیں اور ایک دوسرے کے خلاف گواہیاں اور ثبوت اکٹھے کرتے پھریں۔
موجودہ سماجی صورت حال میں طلاق کے نظام کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات کافی حد تک درست معلوم ہوتی ہے کہ پرسنل لا کا استعمال کرتے ہوئے اکثر مرد توطلاق کے تین الفاظ ادا کرکے الگ ہوجاتا ہے لیکن عورت کے لئےسماجی مسائل جہاں ان گنت تلخ تجربوں سے بھرپور ہوتے ہیں وہیں قانونی مسائل مالی، جسمانی، نفسیاتی وجذباتی لحاظ سے مطلقہ خاتون اور اس کے خاندان کے لئےگوناگوں آزمائشوں میںپھنس جاتے ہیں۔ طلاق کے بعد اگرچہ عورت پہلے ہی اپنا گھر ٹوٹنے کے باعث اپنی جذباتی، نفسیاتی ، جسمانی کیفیت کےایک بدترین دور سے گزرہی ہوتی ہے وہیں جب اسے اپنے متفرق شرعی یا قانونی حق کے حصول کے لئے یا اپنے دفاع میں قانونی چارہ جوئی کا طریقہ اختیار کرنا پڑتاہے۔ عدالت میں قانونی لڑائی کے لئے عورت کو بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ موجودہ معاشرے میں مطلقہ خواتین کو درپیش قانونی مسائل درج ذیل ہیں ۔بہت سی مطلقہ خواتین کو اپنے سامان جہیز کی واپسی، حق مہر کی طلبی، نان و نفقہ کی فراہمی، بچوں کی کسٹڈی کے معاملے میں عدالت سے بسا اوقات رابطہ کرنا مجبوری ہوجاتا ہے کیونکہ سماج میں کوئی متبادل ادارہ یا نظام موجود نہیں ہوتا ہے۔ اکثر ان کے مالی وسائل ان کی و انکے بچوں کی کفالت کے لئے اطمینان بخش نہیں ہوتے، اور نہ ہی ان کے والدین یا بھائی اس مالی حیثیت کے حامل تھے کہ انکی مالی اعانت کرسکتے۔
عدالتی نظام میں مختلف حیلے بہانوں سے تاخیر، کبھی فریق ثانی کا عدالت میں پیش نہیں ہونا کبھی وکیل کا موجود نہ ہونا، کبھی میڈیکل سرٹیفیکیٹ پیش کرکے حاضری سے ایک لمبے عرصے تک استثنا وغیرہ۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تنگ آکر کیس ہی واپس لے لیں یا تاخیر سے تھک کر اور پریشان ہوکر عدالت ہی آنا چھوڑ دیں۔
مطلقہ عورتکی اگر اولاد بھی ہیں تو ایسی صورت میں اس کے لئےمزید پریشانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ خصوصا بچوں کی کسٹڈی اور ان کے نان و نفقہ کا مسئلہ۔ طلاق اگرچہ خاندانی طور پر ہوچکی ہو لیکن ان معاملات کے لئے مطلقہ اور اس کے ورثا کو عدالتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ ہمارے عدالتی نظام میں بھی بہت سے نقائص ہیں اور حصول انصاف اور داد رسی کے لئے اسے بہت سے صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اس سے ذہنی اذیت، بے بسی، وقت اور پیسوں کا ضیاع، عدالتوں کے چکر اور دیگر مسائل سے مطلقہ خاتون کو نبرد آزما ہونا پڑتا ہے جو ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔ بچے بھی جذباتی و نفسیاتی لحاظ سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچے چونکہ اپنی والدہ کی سرپرستی میں زیادہ ترہوتے ہیں ،اس لئے بھی خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نان و نفقہ کے مسائل کے لئے ہمارے ملک میں سبھی مذاہب کے لئے کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ ۱۲۵ کا قانون ہی لاگو ہوتا ہے۔ مطلقہ خواتیناور بچوں کے نان و نفقہ کے مقدمات بھی عدالتوں میں زیر سماعت ہوتے ہیں۔ شوہر کی ہٹ دھرمی و نان و نفقہ اور کفالت سے انکار کرنے پر نیز کفالت کے لئے ہمارے سماج میں کوئی مستحکم متبادل نظام چونکہ موجود نہیں ہے اس وجہ سے عدالت کا رخ کرنا بسا اوقات مجبوری ہوتی ہے۔
عدالت میں طلاق کے بعد خواتین کی جانب سے شوہر پر حق مہر کی ادائیگی اور سامان جہیز کی واپسی کے مقدمات پیش ہوتے ہیں۔ عموما حق مہر شادی کے موقع پر ادا نہیں کیا جاتا ، بعد میں مرد حضرات اکثر یہ حق معاف کروانے کی کوشش کرتے ہیں ، طلاق ہونے کی صورت میں عورت عدالت سے مہر کی ادائیگی کے لئے رجوع کرتی ہے۔ تاہم ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے جب مہر کی رقم کی حصولیابی کے لئے عورت کے پاس کوئی متبادل شکل موجود نہ ہو تبھی عورت انصاف کے حصول کے لئے عدالت سے رجوع کرتی ہے۔
طلاق کے بعد مطلقہ کو یہ بھی مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ شادی کے موقع پر اورشادی کے بعد دلہن کو والدین، عزیز و اقارب کی جانب سے دئیے جانے والے تحائف شوہر یا اس کے والدین کی تحویل میں ہوتے ہیں۔ طلاق کے وقت عموما اسے بے یارو مددگار گھر سے نکال دیا جاتا ہے ایسے میں اس کا تمام سامان جہیز اور تحائف سسرال میں روک لئے جاتے ہیں۔ بعدازاں وہ اپنے سامان کی واپسی کے لئے عدالت سے رجوع کرتی ہے لیکن ایسے مقدمات میں فیصلے بہت تاخیر سے ہوتے ہیں۔ لڑکے والے سامان جہیز کا عموما انکار کرتے ہیں یاکچھ ہی سامان دینے پر راضی ہوتے ہیں۔ طلاق کے بعد زوجین کے سامان کی واپسی کا معاملہ شرعی اور قانونی لحاظ سے اہم اور نازک ترین ہے ۔ طلاق کا اسلامی رویہ اپنانے کی بجائےعورت کے سامان جہیز ، تحائف و دیگر اسباب پر جبرا قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
سماج میں پیدا مسائل اور بگڑی ہوئی صورت حال ہی قوانین وضع کرنے کی بنیاد ہوتے ہیں، ایسےسماج میں قوانین کا وضع کرنا اور ان کا نفاذ یقینی بنانا ایک اہم مسئلہ بن جاتا ہےتاکہ سماج میں پیدا منفی اثرات کو مثبت رخ دیا جاسکےاور سماج اپنا ارتقاء مثبت سمت میں جاری رکھےنیز معاشرہ ایک حقیقی فلاحی معاشرہ بن سکے ۔لیکن یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ صرف قوانین کا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ سماج کا ذہن بھی مثبت انداز میں تیار کیا جانا ضروری ہے جو قوانین اور سماجی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کو اپنا سماجی و اخلاقی فریضہ سمجھے۔ اسی طرح طلاق، خلع و تنسیخ نکاح کے مقدمات میں بھی زوجین میں مصالحت کے اقدامات میں بھی سماج کو اپنا اخلاقی فریضہ ادا کرنا چاہیے۔ سماج کے سماجی و مذہبی ادارے سماج میں ہونے والے ازدواجی مسائل کے حل کے لئے ایسے نظام یا مقامی ادارے قائم کریں جہاں ازدواجی مسائل کے حل کے لئے باقاعدگی کے ساتھ کوشش کریں اور یقینی بنائیں کہ سماج میں کسی کے حقوق سلب نہ کئے جائیں۔