سپریم کورٹ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درجنوں درخواستوں پر بدھ کو سماعت شروع کرے گی۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بنچ اس کی سماعت کرے گی۔ بنچ میں جسٹس کے وی وشواناتھن اور جسٹس پی وی سنجے کمار بھی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ بنچ اس معاملے کی سماعت دوپہر 2 بجے کرے گا۔
اس قانون نے ملک بھر میں زبردست احتجاج اور بحث کو جنم دیا ہے۔ جہاں ایک طرف عرضی گزار اسے مسلم کمیونٹی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور مذہبی خود مختاری پر حملہ قرار دے رہے ہیں وہیں دوسری طرف مرکزی حکومت اسے شفافیت اور بہتر حکمرانی کے لیے ضروری اصلاحات کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
وقف ترمیمی ایکٹ 2025 پارلیمنٹ میں گرما گرم بحث کے بعد منظور کیا گیا اور 5 اپریل کو صدر دروپدی مرمو کی منظوری حاصل کرنے کے بعد ایک قانون بن گیا۔ اس میں وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کرنے، صارف کے ذریعہ وقف کے تصور کو ختم کرنے اور ایگزیکٹو افسران کو مزید اختیارات دینے جیسی دفعات شامل ہیں۔
چیلنج کرنے والے عرضی گزاروں میں حیدرآباد کے ایم پی اسد الدین اویسی، آپ ایم ایل اے امانت اللہ خان، ترنمول کانگریس کے مہوا موئترا، آر جے ڈی ایم پی منوج جھا اور کئی مذہبی تنظیمیں جیسے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ,جمعیۃ علماء ہند،اور جماعت اسلامی ہند وغیرہ شامل ہیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں ہندو جماعتوں کی طرف سے 1995 کے اصل وقف ایکٹ کے خلاف دو درخواستیں شامل ہیں، جب کہ دیگر نے حالیہ ترامیم کی صداقت پر سوال اٹھایا ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ وقف ایکٹ 1995 وقف املاک کے انتظام، ضابطے اور تحفظ کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔ یہ ایکٹ وقف بورڈ کو خود مختاری دیتا ہے اور سروے، وقف املاک کے رجسٹریشن اور تنازعات کے حل کا انتظام کرتا ہے۔