ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ظالم نے کتنا عمدہ شعر کہا ہے
اس کی ادائیں بڑی قاتل ہیں
وہ کتنا شریر اور نٹ کھٹ ہے _
اس طرح کے جملے ہم عام طور پر بولتے رہتے ہیں ، لیکن ان میں استعمال کیے گئے الفاظ کے حقیقی معنی مراد نہیں لیتے _ چنانچہ کسی شاعر کے عمدہ شعر کی تعریف کرتے ہوئے اسے ‘’ظالم‘ کہتے ہیں تو یہ مراد نہیں لیتے کہ اس نے کسی پر ظلم کیا ہے _ کسی دوشیزہ کی تعریف کرتے ہوئے اس کی اداؤں کو’ ‘قاتل‘ کہتے ہیں تو یہ مراد نہیں لیتے کہ اس نے کسی کا خون کیا ہے _ کسی بچے کو ’شریر‘ کہتے ہیں تو یہ مراد نہیں لیتے کہ اس نے شر و فساد پھیلا رکھا ہے _ اسی طرح اگر ہم یہ جان لیں کہ جس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو عقل اور دین کے معاملے میں ’ناقص‘ قرار دیا ہے اس کا حقیقی معنیٰ مراد نہیں ہے ، بلکہ پیار و محبت کا اظہار کرنے کے موقع پر ادا کیے ہوئے الفاظ ہیں تو کچھ اشکال پیدا نہ ہو _ لیکن اس پہلو کو ملحوظ نہ رکھنے کے نتیجے میں بعض لوگوں نے حدیث کو ہی ناقابلِ اعتبار قرار دیا تو دوسروں نے اس کی دور از کار تاویلیں کیں _
مذکورہ حدیث کا متن درج ذیل ہے :
حضرت ابو سعید خدری ، حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر یا عید الاضحی کی نماز کے لیے نکلے _ نماز کے بعد آپ عورتوں کے مجمع کی طرف گئے اور ان کے سامنے یہ خطبہ دیا: ’اے عورتو! خوب صدقہ کیا کرو ، اس لیے کہ میں نے جہنم میں اکثریت تمہاری دیکھی ہے ‘ عورتوں نے سوال کیا : ’ایسا کیوں؟ اے اللہ کے رسول!‘ آپ نے فرمایا : ’ تم بہت زیادہ لعن طعن کرتی ہو اور رفیق حیات (شوہر) کی ناشکری کرتی ہو میں نے عقل اور دین کے معاملے میں تم جیسا ناقص کسی اور کو نہیں دیکھا ، جو ہوشیار مردوں کی عقل کو گم کردیتا ہو ‘ عورتوں نے دریافت کیا : ’ہمارے دین اور عقل میں کیا کمی ہے؟‘ اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا : ’ کیا ایسا نہیں ہے کہ عورت کی گواہی مرد کی گواہی کا نصف ہے؟ (یعنی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہوتی ہے)‘ عورتوں نے کہا : ’ ہاں، ایسا ہی ہے ‘ آپ نے فرمایا : ’یہ اس کی عقل کی کمی کی وجہ سے ہے ‘ آپ نے مزید فرمایا : ’کیا ایسا نہیں ہے کہ جب اسے حیض (ماہ واری) آتا ہے تو وہ نہ نماز پڑھتی ہے نہ روزہ رکھتی ہے ‘ عورتوں نے کہا : ’ ہاں ، ایسا ہی ہے ‘ آپ نے فرمایا : ’ یہ اس کے دین میں کمی کی وجہ سے ہے ‘
یہ حدیث بہت سی کتب حدیث ، مثلاً بخاری :304 ، 1462 ،مسلم :79 ،ابوداؤد: 4679 ، ترمذی :2613 ، ابن ماجہ :4003، احمد : 5343 وغیرہ میں آئی ہے ، اس لیے اسے ضعیف اور بے بنیاد قرار دینا درست نہیں ہے ، بلکہ اس کی توجیہ کرنی چاہیے اور اس کی صحیح توجیہ یہی ہے کہ اس میں ‘ عورت کی عقل اور دین میں ’کمی‘ کے حقیقی معنیٰ مراد نہیں ہیں۔ _
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عورتوں کو’ ‘ناقصاتِ عقل‘ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی عقل اور فکری صلاحیتیں مردوں سے کم ہوتی ہیں _ یہ احتمال آپ کے اگلے جملے سے ہی دو ہوجاتا ہے کہ ’ عورت ہوشیار مرد کی عقل کو گم کردیتی ہے ‘ اگر عورت ناقص العقل ہوتی تو کیسے عقل مند مردوں کو قابو میں کرلیتی؟ آپ کا اشارہ سورۂ بقرہ کی آیت 282 کی طرف تھا ، جس میں ایک مخصوص مسئلے میں کہا گیا ہے کہ ’دو مردوں کی گواہی لو ، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی لو ، تاکہ ایک عورت کی بھول چوک کو دوسری عورت یاد دلا دے ‘
اس آیت میں کوئی عمومی حکم نہیں بتایا گیا ہے کہ ہر حال میں عورت کی گواہی مرد کی گواہی کا نصف ہوتی ہے ، بلکہ اس میں ایک مخصوص صورتِ حال کا بیان ہے _ ورنہ شریعت میں بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں صرف ایک عورت کی گواہی معتبر ہے ، جب کہ اس میں مردوں کی گواہی معتبر نہیں ، مثلاً رضاعت _
آیت اور اس کے سیاق میں حدیث میں عورت کی عقل میں کمی کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ اسے ایک عورت ہی کی زبانی سنیے _ محترمہ سمیعہ نازش لکھتی ہیں :
’’ آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فکری صلاحیت کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان فرق ہے اور حواس اور ذہانت کے معاملے میں ان کے درمیان تفاوت پایا جاتا ہے _ جو شخص بھی کسی واقعے کے ایک پہلو کو مدّنظر رکھ کر سوچے گا اور دوسرے پہلو کو نظر انداز کر دے گا اس کا غور و فکر ناقص ہوگا ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت _ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل میں کمی کا مطلب غور و فکر کی صلاحیتوں میں کمی یا دماغ کی بناوٹ میں نقص نہیں ہے ، بلکہ یہ کمی ان خارجی اسباب و عوامل میں ہوتی ہے جو غور و فکر پر اثر انداز ہوتے ہیں _ ان سے عورت بہت جلد متاثر ہوجاتی ہے ، کیوں کہ اس کی فطرت میں جذبات کا غلبہ ہوتا ہے _ وہ اپنے فطری جذبات سے مغلوب ہو کر اشیاء کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے _ اس کے جذبات بسا اوقات اس کی عقل پر غالب ہو جاتے ہیں ‘ ‘ [ مقالہ : عورت سے متعلق بعض احادیث کا مطالعہ ، سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ ، اکتوبر _ دسمبر 2021 ]
اسی طرح عورتوں کے’ناقصاتِ دین‘ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اعمال کی انجام دہی پر بارگاہِ الٰہی میں مردوں کے مقابلے میں کم اجر پائیں گی _ حدیث میں لفظ ’نقص‘ کا استعمال صرف ظاہری اعتبار سے کیا گیا ہے ، حقیقی اعتبار سے نہیں _ حدیث میں جو مثال دی گئی ہے اس کی روشنی میں دیکھیں تو عورتیں ماہ رمضان المبارک میں مردوں کے مقابلے میں کم روزے رکھ پاتی ہیں اور کم نماز پڑھ پاتی ہیں _ اس لیے کہ حیض کے ایام میں ان کے لیے روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا ممنوع ہے _ اس طرح عورتوں کے روزے اور نماز گنتی کے اعتبار سے کم رہ جاتے ہیں ، لیکن اس کمی میں عورتوں کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہوتی ، اس لیے کہ ان مخصوص ایام میں اللہ تعالیٰ نے ان پر روزہ و نماز فرض ہی نہیں کیے ہیں _ اس بنا پر ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں آتی _ عورتوں کو ماہِ رمضان میں جتنے روزے اور نماز کی توفیق ملتی ہے ان کی ادائیگی پر وہ مردوں کے برابر اجر کی مستحق ہوتی ہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ تو اعمال کی کیفیات دیکھتا ہے ، اس بنا پر عورتیں اپنے کم روزہ و نماز کے باوجود ان کے اجر میں مردوں سے بڑھ سکتی ہیں _۔