تحریر: عبدالسلام عاصم
نفرت، تفرقہ پسندی، رعونت، دکھاوے کی عاجزی، ناحق قتل، پسند اور ناپسند کی بنیاد پر حق و باطل کے فیصلے، انتہا پسندی، دہشت گردی اور ماب لنچنگ سمیت ہر سماجی برائی کی بنیادی وجہ وہ نظریات ہیں جو علمی کے بجائے ادعائی جواز رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں پرائمری اور مڈل سطح کے نصابات پر ایسے ہی نظریات کا غلبہ ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ چیز آج محسوس کی گئی ہے۔ اس کا ادراک کرنے والوں نے علم سے محروم سماج میں اِن نصابات کو مرحلہ وار بدلنے کی عہد بہ عہد بہت کوششیں کیں، لیکن ان کے نتائج حسب خواہ اِس لئے مرتب نہیں ہوئے کہ ایسی کسی بھی کوشش کو اُن مقتدرات کی طرف سے تعاون حاصل نہیں رہا جن پر محدود مفادات کو ترجیح دینے والے قابض تھے۔ حالات آج بھی جوں کے توں ہیں۔
تو کیا اِس منظرنامے کو کبھی بھی بدلا نہیں جا سکتا! ایسا نہیں ہے، بدلا جا سکتا ہے، بصورت دیگر آج ہمارے سامنے ترقی یافتہ قومیں موجود نہیں ہوتیں اور ہم بھی اِن خطوط پر ایک سے زیادہ مرتبہ غور کرنے کے متحمل نہیں ہو پاتے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ قوموں کے جیالوں نے ایک سے زیادہ موقعوں پر سماج کو بدلنے کی سیاسی، تہذیبی اور سماجی کوششوں کے حسب خواہ کامیاب نہ ہونے پر آئینی اور قانونی راستہ منتخب کیا تھا۔ اس راہ میں ایک طرف جہاں انہیں مقتدرات کی طرف سے رکاوٹوں کا سامنا رہا وہیں حکومت اور اپوزیشن کے روشن خیال ارکان کے علاوہ سماجی، تہذیبی اور مذہبی سطحوں پر بھی حالات سے بیزار حلقوں نے ان کا ساتھ دیا۔وہ اُن کو ساتھ لے کر آگے بڑھے۔راستے دشوار ملے مسدود نہیں۔ اس طرح جب صدیوں کی تاریکی دہائیوں میں مٹتی نظر آئی تو پھر ان جیالوں نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
آج ہم بعض ترقی یافتہ اقوام سے بہ انداز دیگر شاکی ضرور ہیں لیکن ہماری شکایات کا بڑا حصہ ہم سے ازالہ طلب ہے، اُن سے نہیں۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں دنیا کے گاوں میں بدل جانے سے ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں سے ربط کے منفی اثرات سے اپنے سماج کو محفوظ رکھنے کیلئے متذکرہ قانونی نظم کو نئے تقاضوں سے اور بھی زیادہ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالات کے تازہ موڑ پر فرانس اور دوسرے یورپی ملکوں میں ایسی کوشش ہمیں بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے بشرطیکہ ہم اس رُخ پر سنجیدہ ہوں۔
برصغیر سمیت تمام متاثر خطوں کے بیدار حلقے بھی اِس رُخ پر چاہیں تو آگے بڑھ سکتے ہیں۔ راستہ ان کیلئے بھی صرف دشوار ہے مسدود نہیں ہے۔ وطن عزیزمیں یہ تجربہ کیاجا سکتا ہے لیکن اس کیلئے ویسی ہی قانون سازی کی ضرورت پیش آئے گی جیسی ترقی یافتہ قوموں نے اپنی عصری ترقی کے آغاز میں کی تھی۔ایسی قانون سازی معاشرے کو اجتماعی فوائد اور ان کے نتیجے میں کچھ لوگوں کو لگنے والے انفرادی جھٹکوں کو ایڈجسٹ کرکے خوشگوار تبدیلیوں کے تانے بانے کو جوڑنے میں مدد کرتی ہے۔ اس طرح ہم چاہیں تو قانون کو مقامی، علاقائی اور بین اقوامی سطح پر بہتر سماجی تبدیلی کا ایک جدید ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف سماجی فریم ورک کا حسن بڑھے گا بلکہ تعلقات بھی طبقاتی کم اور انسانی زیادہ نظر آئیں گے۔
اگر اس رخ پر ابھی سے انقلابی قدم اٹھایا گیا تو ایک پیڑھی گزرتے ہی منظرنامہ یکسر بدل جائے گا۔ بصورت دیگر حالات اور دگر گوں ہوں گے اور آنے والا کل خوف کے موجودہ تصور سے زیادہ بھیانک ہو سکتا ہے کیونکہ جس معاشرے میں نفرت بین فرقہ تعلقات کی پہچان بن گئی ہو وہاں سب سے پہلے اصلاح معاشرہ کے ٹھیکہ داروں کو اپنا ایماندارانہ محاسبہ کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ سماج کو موالی نہیں بگاڑتے بلکہ خراب سماج میں مختلف قسم کے موالی پیدا ہوتے ہیں۔ اتنی سی بات جس کو سمجھ میں نہ آئے وہ سماجی ذمہ داری سے پہلی فرصت میں دست بردار ہو جائے۔
کسی بھی سماج کو بہر حال ناسمجھوں سے اُس وقت تک نجات نہیں مل سکتی جب تک حقیقی تعلیم سے فیض اٹھانے والے اپنی کھال بچا کر جینے اور موقع ملتے ہی جہل کی بھیڑ سے نکل کر کہیں اور پناہ لینے کی روش ترک نہیں کریں گے۔ حقیقی معنوں میں پڑھے لکھے لوگوں کی حد سے سوا عافیت پسندی ہی ایسے سفید پوش سماج دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جنہوں نے علم کو جہل کیش کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ ایسے خستہ حال سماج کی نمائندگی کرنے والی حکومتیں بھی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے بچنے کیلئے دھندے بازوں کی فرقہ وارانہ قیادت سے معاملات کرتی ہیں۔ ایسے معاملات میں کبھی اکثریت کو ٹھیس پہنچتی ہے تو کبھی اقلیت کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ عصری منظر نامہ بھی نئے خط و خال میں اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اقتدار کی سیاست اورتاجرانہ معاشرت سے بخوبی آگاہ قانون دانوں کو معبد رُخی قانونسازی کے بجائے حکمراں اور اپوزیشن کے بیدار حلقوں کے عاقبت اندیشانہ اتفاق سے ایسا قانون سامنے لانا چاہئے جس سے ملک کے اُن جمہوری اصولوں کو تقویت حاصل ہو جن کو مان کر چلنا سیکولر اور مذہبی دونوں حلقوں پریکساں طور پر لازم ہو۔ اس قانونسازی کیلئے ایک ایسا بل تیار کیا جائے جو کسی مخصوص مذہب کو زد پر نہ لیتا ہو بلکہ ہر مذہب کی صرف اُن اقدار کی پاسداری کی ضمانت دیتا ہو جن سے انسانی زندگی کے تقدس کی ہر قسم کی پامالی کی بھر پور حوصلہ شکنی ہوتی ہو۔
کچھ لوگوں کو ایسا محسوس ہو سکتا ہے ایسی کوئی بھی قانونسازی اُن کو نشانہ بنا کر کی جاسکتی ہے۔ اب تک کی مندر مسجد قانونسازی سے پریشان ایسے لوگوں کے حلقوں میں اب بھی اعتدال پسند مذہبی رہنما، انسانی وسائل کے بہتر استعمال کا حقیقی علم رکھنے والے ادارہ جاتی اور شعبہ جاتی ذمہ دار اور دوسرے اسٹیک ہولڈر موجود ہیں۔ اُن کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ”ردعمل برائے ردعمل“پسند نام نہاد رہنماوں کی اپنے ہی حلقے میں حوصلہ شکنی ہو۔ اس کوشش میں حکومت اور اپوزیشن کے ذمہ دار حلقوں کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ اِس مخصوص رُخ پر اُن کی صفوں میں ایسے عناصر نہ در آئیں جو ہر کام صرف سیاسی پوائنٹس حاصل کرنے کیلئے کرتے ہیں۔
وطن عزیز میں سیکولرزم جہاں سیاست دانوں کے ہاتھوں اِس وقت خستہ حالت میں ہے، وہیں مذاہب کو اہل مذاہب کے ایک حلقے نے ہدایت کی راہ کے بجائے فخر کا جواز بناکر رکھ دیاہے۔ ایسے میں آزمودہ اور روایتی تدارکی نسخوں سے بات بنتی نظر نہیں آتی۔ حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہو چکے ہیں کہ جو لوگ مذاہب کو تہہِ دل سے منزل رُخی راستہ سمجھتے تھے وہ بھی اب اپنی کھال بچانے کیلئے اِس راستے کو کمبل کی طرح اوڑھنے لگے ہیں۔ مقابلہ اب کسی کے دہریہ یا مذہبی ہونے کا نہیں بلکہ انسان ہونے کا ہے اور انسان ایک سے زیادہ مذاہب کے قبول و رد کی بھیڑ میں گُم ہو کر رہ گیاہے۔ تقریباً ہر شخص اپنے علم و ہنر کی حقیقی پہچان رکھنے کے باوجود اپنی بائی ڈیفالٹ نزاعی شناخت کی قیمت چکانے پر مجبور ہے۔
ایسے میں نئی قانونسازی میں کچھ اس طرح کی گنجائشیں نکالی جائیں کہ مذہبی تعلیم کے ابتدائی عمر کے رشتے کو نئے سرے سے مربوط کیا جاسکے۔ سوال قائم کرنے بجائے صرف سُنی اور پڑھی باتیں من و عن قبول کر لینے والے بچوں کے ذہن میں اُن کے اپنے مذہب کی ایسی تعریف کی گنجائش نہ نکالی جائے کہ بچوں کے اندر بالواسطہ طور پر اپنے مذہب کی (دوسرے مذاہب سے) برتری کا احساس پیدا ہو اور مذہب اُن کیلئے بے جا فخر کی چیز بن جائے۔ یہ چیز بلوغت کے سفر کو خطرناک بناتی ہے اور عدم رواداری کی کاشت میں اس طرح کے جذبات کھاد کا کام انجام دیتے ہیں۔
مذاہب کے تقابلی مطالعے کو سماجیات کا لازمی حصہ بنایا جائے اور اس کے اسباق اس طرح مرتب کئے جائیں کہ تقابلی مطالعہ کسی طور مسابقتی مطالعے میں نہ بدلے اور واقفیت کا دائرہ صحت مند تفہیم سے آراستہ ہو، سنی سنائی باتوں سے نہیں۔ اسی طرح ملک میں سیاحت کے مقامات پر یادگاروں اور عجائب گھروں کو کثرت میں وحدت کا آئینہ دار بنایا جائے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ یہ قدم پہلی فرصت میں اٹھایا جائے تاکہ قوم کی بچی کھچی وہ اخلاقی قدریں تباہ ہونے سے بچ جائیں جن کے بغیر ہم علاقائی اور عالمی سطح پر نہ اقتصادی دوڑ کا حصہ بن سکیں گے اور نہ ہی ہمارے معاشرتی حُسن میں کسی کیلئے کوئی کشش باقی رہ جائے گی۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)