تحریر:محمد یاسین جہازی
سوشل میڈیا کے ایزی ایکسس کی وجہ سے آج ہر شخص واٹس ایپ کالج اور فیس بک یونی ورسٹی میں داخل ہوکراپنے مبلغ فکر کے اعتبار سے گیان بانٹنے اور بٹورنے کوپیدائشی حق سمجھ رہا ہے۔چوں کہ یہاں معلومات کو فلٹر کرنے، یا صحیح یا غلط بتانے والا کوئی استاذ نہیں ہوتا، اس لیے ضروری، غیر ضروری، یا درست اور غلط میں تفریق کیے بغیر ہر قسم کی معلومات ہمارے دماغ میں بھر جاتی ہیں۔ اور ہمارا حافظہ خانہ معلومات کا ڈسٹبن بن جاتا ہے۔
ایک مسیج آتا ہے کہ جو شخص رمضان کی آمد کی سب سے پہلے اطلاع دے گا، وہ ایک سال پہلے جنت میں جائے گا۔ اس مسیج میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ایسا حدیث میں کہا گیا ہے۔ ایک ایسا ویڈیو آتا ہے،جس میں خزاں سے متاثر ایک درخت سے بڑا ناگ لپٹا ہوا ہے، اور ساتھ میں آواز آتی ہے کہ جو شخص اس ویڈیو کو دس گروپ میں نہیں بھیجے گا تو اسے سخت نقصان پہنچے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایک صاحب نے اسے جھوٹ سمجھ کر ڈیلیٹ کردیا اور آگے فارورڈ نہیں کیا تو اس کا بیٹا مرگیا
۔
ایک آڈیو آتا ہے کہ مدینہ کے شیخ نے ایک خواب دیکھا کہ اس آڈیوکو دس گروپ میں بھیجنے والے کو رسول اللہ ﷺ کی زیارت نصیب ہوگی۔ اور جو نہیں بھیجے گا وہ ایمان سے محروم ہوجائے گا۔ مکہ کے شیخ کا فرمان لکھا ہوا ٹیکسٹ آتا ہے کہ رسول اللہ نے انھیں پابند کیا ہے کہ بیس گروپ میں اس بات کو پھیلادو ، نہیں تو روز قیامت میری شفاعت سے محروم رہو گے۔ ایک شخص یہ پوسٹ وائرل کرتا ہے کہ جو کوئی شب براتمیں روزہ رکھے گا، تو ایک سال تک روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا ۔ اور جو کوئی اس مسیج کو آگے بھیجے گا، تواس کو دو سال تک روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو تین سال پہلے ایک بچہ لاپتہ ہوگیا تھا، جس کو تلاش کرنے کی خبر پر مشتمل کوئی امیج بنائی گئی تھی۔ دو تین سال بعد کسی نے ایک شخص کو کسی گروپ میں شامل کردیا ، تو اب وہ شخص قدیم و جدید خبر کی تصدیق کیے بغیر لگاتار اسے فارورڈ کرتا رہتا ہے اور اپیل بھی کرتا ہے کہ اسے سارے گروپ میں شئیر کریں، تاکہ کسی کو اپنا گم کردہ لعل مل سکے۔ ایک مقرر نے کسی خاص پس منظر میں کوئی تقریر کی تھی۔ کئی سالوں بعد ایک شخص واٹس ایپ کالج میں نیا نیا داخلہ لیتا ہے، تو وہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ تقریر حال کی ہے اور اسے آگے بھیجنا ہمارے اوپر فرض ہے۔
کہیں گستاخانہ حرکت کی جاتی ہے، تو اس سے باز رہنے یا اس پر لعنت بھیجنے کے لیے ایسے مسیج کواتنا فارورڈ کیا جاتا ہے کہ جتنا تخلیقی سورس سے گستاخی نہیں پھیلتی، اس سے کہیں زیادہ لعنت بھیجنے کی اپیل سے گستاخی پھیل جاتی ہے۔سالوں پہلے کہیں ٹرین حادثہ ہوا تھا، جس کی تصویریں وائرل ہوئی تھیں۔ ایک نیا شخص یا فارورڈ کے شوقین ان کو سالوں بعد شئیر کرنے کو نیک کام سمجھتا ہے ، جس سے یہ گمراہی پھیلتی ہے کہ شاید یہ کوئی نیا حادثہ پیش آگیا ہے ۔ یا کوئی نیا حادثہ پیش آتا ہے، تو لوگ اول مرحلہ میں یہ سمجھنے پر آمادہ ہوتے ہیں کہ شاید یہ کوئی پرانہ حادثہ ہو۔
ایک شخص دنگا فساد برپا کرنے کے مقصد سے جان بوجھ کر تاریخی حقائق سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے اور اسے فرقہ وارانہ ذہنیت کے ساتھ پیش کرتا ہے، جس سے قاری یا تو متعصب بن جائے یا نفرت کے پجاری۔ تاریخ سے نا انجان فیس بکیہ اور وہاٹس ایپ یہ ایسے پیغامات سے بہت جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور اپنے دماغ میں غلط معلومات بھر لیتے ہیں۔کچھ پیغامات کی تمہید میں لکھا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان ہو تو شیئر کرو۔ ۔۔۔ اگر نبی کے سچے عاشق ہو، تو اسے آگے بھیجو۔ کوئی کافر ہی ہوگا، جس اس تصویر کو لائک یا شیئر نہیں کرے گا۔ ۔۔۔ تجھے قسم ہے رب کعبہ کی ، اس مسیج کو ضرور آگے بھیجنا ، وغیرہ وغیرہ۔
یہ جو کچھ بھی پیش کیا گیا ہے، ’’مشتے نمونے از خروارے‘‘ ہے۔ اس قسم کے لاتعداد مسیج اور معلومات اسکرین کے توسط سے ہم تک پہنچتی ہیں ۔ اور ہمارا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی طرح کی تحقیق کیے بغیر ہم سبھی معلومات کو اپنے دماغ میں جگہ دے رہے ہیں، جس سے ہمارا دماغ حافظہ خانہ نہیں، بلکہ معلومات کے کچرے کا ڈبہ بن جاتا ہے۔ جس سے برین واش ضروری ہے۔
اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ احادیث کی کتابوں میں متن احادیث کے ساتھ ساتھ سندیں بھی ہوتی ہیں۔ سند کا سلسلہ نبی اکرم ﷺ تک ملنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر متن حدیث کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ سند کی ضرورت و اہمیت بتاتے ہوئے حضرت عبد اللہ ابن المبارک فرماتے ہیں کہ ’’ سند بھی دین کا حصہ ہے، کیوں کہ اگر سند نہ ہوتی، تو جس کے جی میں جو آتا، وہ کہہ دیتا کہ یہ رسول اللہ کا فرمان ہے۔ اور پھر ہر شخص اپنے مفاد کی بات کو آگے رکھنے کے لیے رسول اللہ کا فرمان گھڑ لیتا اور ذخیرہ احادیث شکو ک و شبہات اور تحریفات کا پلندہ بن کر رہ جاتے۔
الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّینِ، وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ۔( مقدمۃ الإمام مسلم رحمہ اللہ، بَابُ في أَنَّ الْإِسْنَادَ مِنَ الدِّینِ)
اس سے بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی بلا سند بات مان لینا اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہے۔ آج سوشل میڈیاجھوٹ ، جعلی خبروں اور افواہوں کو پھیلانے کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن چکا ہے ، اس لیے کوئی بھی بات خواہ وہ قرآن و احادیث کے حوالے سے ہی کیوں نہ کہی گئی ہو ، بلا تحقیق اس کو اپنے دماغ میں محفوظ رکھنا اور اس کو پھیلانا ، خود اپنی نگاہ میں جھوٹا اور بے اعتبار ہونے کے لیے کافی ہے ۔ ایسے ہی مواقع کے لیے نبی اکرم ﷺ کی ہدایت موجود ہے کہ کَفی بِالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔(مقدمۃالإمام مسلم رحمہ اللہ بَابُ النّھْيِ عَنِ الْحَدیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ)انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی باتوں کو دوسروں کے سامنے بیان کردے۔
یاد رکھیے کہ ہماری ایک جعلی اور جھوٹی معلومات بانٹنے یا بٹورنے سے ہماری جان بھی جاسکتی ہے۔ جان کیا چیز ہے، ہم ایمان سے بھی محروم ہوسکتے ہیں یا کرسکتے ہیں، جس کے باعث دنیوی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت بھی تباہ و برباد کرنے کے مجرم ٹھہریں گے۔ اس سے یہ سبق لینا ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے دماغ کو معلومات کا کچڑا دان نہ بنائیں اور صرف حقیقی ، مستند اور سچی معلومات کو ہی اپنے حافظہ کے نہاخانہ میں محفوظ رکھیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)