رام پور( محمد مسلم غازی)
عید الاضحی در اصل حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی یادگار ہے۔ یہ بات معروف عالم دین مولانا عبد الخالق ندوی نے کہی۔ روزنامہ خبریں سے بات کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ جب حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا اور انہوں نے لخت جگر سے اس بابت مشورہ کیا تو فرماں بردار بیٹا فوراً ہی خدا کے حکم کی تعمیل میں قربان ہونے کو تیار ہو گیا۔ یہ دراصل ابراہیمؑ کا سخت امتحان تھا۔
انہوں نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے لٹایا مگر اسماعیل ؑ کے بجائے جنت کا دنبہ ان کے ہاتھوں قربان ہو گیا۔ اس کے بعد رب تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل (گہرا دوست) بنانے کا اعلان کیا۔ مقامی امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ یہ منظر چشم فلک نے پہلی بار دیکھا تھا کہ ایک شفیق بوڑھا باپ اپنے ہاتھوں نوخیز لخت جگر کو رب کی رضا کیلئے قربان کر رہا تھا اور بیٹا بھی اپنے رب کی خوشنودی کیلئے گردن پیش کر رہا تھا۔ باپ بیٹے کا یہ جذبہ و ایثار اللہ کو اتنا پسند آیا کہ رہتی دنیا تک حضرت ابراہیمؑ کی اس یادگار کو زندہ رکھا۔ شیخ الحدیث مولانا عبد الخالق ندوی نے کہا کہ جانور ذبح کرنے کا مقصد تقویٰ، اطاعت و فرمانبرداری اور رب تعالیٰ کی رضا کا حصول اور حضرت ابراہیم ؑ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنا سب کچھ خدا کیلئے قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ اگریہ مقصد ہی نہ ہو یا کسی کوتاہی کی وجہ سے یہ حاصل نہ ہو سکے تو ہماری قربانی اللہ کے نزدیک رائیگاں ہے۔
جامعۃ الصالحات رام پور میں تدریسی خدمات انجام دے رہے مولانا عبد الخالق ندوی نے کہا کہ عید الاضحی کے روز جانور کا خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل اللہ کو پسند نہیں ہے۔ قربانی کے جانور کو اللہ نے اپنے شعائر میں سے قرار دیا ہے۔ روز قیامت یہ جانور اپنے تمام اعضاء کے ساتھ لایا جائے گا اور میزان عمل میں اسے نیکیوں کے پلڑے میں رکھ کر تولا جائے گا۔ جبکہ جانور کے ایک ایک بال کے بدلے قربانی کرنے والے کو نیکی ملے گی۔ مگر صد افسوس! کہ ہمارے یہاں قربانی تو عموماً لوگ کرتے ہیں مگر اس کی روح کو پامال کرنے کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔
متعددکتابوں کے مصنف مولانا عبد الخالق ندوی نے کہا کہ نیکی چاہے کتنی بڑی ہو مگر ریاکاری سے وہ کالعدم ہو کر رہ جاتی ہے بلکہ پیسہ خرچ کرنے کے باوجود وہ عمل نیکی کے بجائے گناہ کے زمرے میں لکھا جاتا ہے۔ قربانی جیسی عظیم عبادت کے سلسلے میں بھی بسا اوقات عوام کا طرز عمل ریاکاری کے مظہر کے طور پر سامنےآتا ہے۔مولانا نے کہا کہ جانوروں کے حوالے سے دیکھا جائے تو گویا مقابلے کی فضا بنی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے مہنگے سے مہنگا جانور خریدنا ایک فیشن بن چکا ہے۔ بچے تو ایک طرف، پختہ عمر کے افراد بھی اپنی شان و شوکت ظاہر کرنے کیلئے قربانی کے جانوروں کو لے کر لوگوں کو ان کی قیمت بتاتے پھرتے ہیں۔ پھر شہرت کے بھوکوں کی جانب سے مہنگے جانور کی تشہیر کیلئے باقاعدہ میڈیا کی ٹیم بھی بلانے کا رواج چل نکلا ہے اور اس نمود و نمائش کی تشہیر کیلئے ابلاغی ادارے بھی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اب سوشل میڈیا تک ہر کس و ناکس کی رسائی نے بقیہ کسر بھی پوری کر دی ہے۔ فیس بک وغیرہ کے صارفین نے قربانی کے جانوروں کی تشہیر کو گویا واجب سمجھ رکھا ہے۔
مولانا نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم قربانی کے جانور کی رسّی تو بچوں کو تھما دیتے ہیں مگر ہم میں سے کتنے ایسے ہیں، جو بچوں کو قربانی کا اصل مقصد اور اس کا فلسفہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ قربانی کے علاوہ دیگر حوالوں سے بھی ہم مذہبی تہوار اس طرح منانے لگے ہیں، جس سے ہم میں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں میں کوئی فرق نہیں باقی رہتا۔چنانچہ اس عمل نے عید الاضحی کی روح کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔مولانا نے کہا کہ عید الاضحی کا واضح پیغام رب کی اطاعت کا اقرار اور اس کا عملی اظہار ہے۔ قربانی در اصل اس بات کا عہد ہے کہ ہم رب کی رضا کیلئے اپنی جانوں کو قربان کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیں گے۔