مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اسلام کا مل دین اورمکمل نظام حیات ہے، اس نظام حیات میں اجتماعیت کی بڑی اہمیت ہے، اسی لئے نماز،روزہ اورحج اجتماعی طریقے پر مل جُل کر ا دا کئے جاتے ہیں، نماز باجماعت کا حکم، رمضان کے مہینے میں روزہ اورحج کے دنوں میں حج کی ادائیگی کاحکم اس اجتماعی نظام کا کھلا ثبوت ہے اور ہمیں بتاتاہے کہ مسلمان ہر حال میں شریعت کی پابندی کریں اور جس طرح مسجد کے امام کے پیچھے سب لوگ ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں ،مسجد کے باہر کی زندگی میں بھی ایک امیر شریعت کے ماتحت ایک اورنیک بن کر زندگی گذاریں، اس لئے کہ مسلمان ایک امت ،ایک جماعت ہے، اس کو اپنی اس حیثیت کو کسی بھی حال میں بھولنا نہیں چاہئے، جب تک ہندوستان میں مسلم حکمراں تھے، یہ مرکزیت مسلم حکمرانوں کے ذریعہ کسی حد تک قائم تھی۔1857میں مغلیہ حکومت کے ختم ہونے کے بعد مسلمانوں کا اقتدار اور مسلمانوں کی اجتماعیت ختم ہوگئی ،علماء کرام اوردردمندان ملت پھر سے مسلمانوں کوایک جُٹ کرنے کی طرف متوجہ ہوئے،چنانچہ 19شوال1339ھ مطابق 26جون 1921کو مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کی تحریک کی، قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ اورحضرت مولانا سیدشاہ بدرالدین قادری نے حمایت کی۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ کی صدارت میں محلہ پتھر کی مسجد ،پٹنہ میں اجلاس ہوا اور امارت شرعیہ قائم کی گئی، یہ صوبہ بہار کے لیے بنائی گئی تھی، اس وقت اڈیشہ وجھارکھنڈ بھی بہار کا حصہ تھا، اس لئے جب بہار کی تقسیم ہوئی ، پہلے اڈیشہ بہار سے الگ ہوا ، پھر صوبہ جھارکھنڈ بنا تو بھی امارت شرعیہ غیر منقسم بہار میں کام کرتی رہی اوراسے امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کا نام دیا گیا۔
اللہ کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق زندگی گذارنا، عام اور خاص لوگوں کو ان کی ذمہ داری بتانا، کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر تمام مسلمانوں کو مضبوطی کے ساتھ ملائے اور بنائے رکھنا، جہاں تک ہو سکے اسلامی احکام کے نفاذ کے لئے کوشش، قوانین خداوندی کے مطابق عدل و انصاف کا قیام، عام انسانوں کی خدمت،فلاحی رفاہی کاموں میں عملی شرکت،اسلامی تعلیم کے مطابق مختلف مذاہب اورفرقوں کے مابین بہترین تعلقات اور صلح وآشتی کا قیام، امارت شرعیہ کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے ،ان امور پر کام کرنے کے لیے شعبۂ تبلیغ،شعبۂ تنظیم،شعبۂ تعلیم، دارالقضاء، دارالافتاء، دارالاشاعت،تحفظ مسلمین ،کتب خانہ،شعبہ امور مساجد،شعبہ خدمت،وفاق المدارس الاسلامیہ اوربیت المال وغیرہ قائم ہیں جو امارت شرعیہ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہمہ وقت سرگرم عمل ہیں، امارت شرعیہ کے مکاتیب، دارالعلوم الاسلامیہ،المعہدالعالی،قاضی نورالحسن میموریل اسکول پھلواری شریف، مولانامنت اللہ رحمانی اردوہائی اسکول آسنسول، امارت پبلک اسکول گریڈیہہ ورانچی، اورسات ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ دینی وعصری تعلیم کے فروغ میں مشغول ہیں، خدمت خلق کے میدان میں تین ہاسپٹل بھی مریضوں کی ضرورت کو پوری کررہے ہیں،بیوہ کے وظائف ،مصیبت کے وقت ریلیف کا کام،غریب بچیوں کی شادی، مریضوں کے علاج وغیرہ میں تعاون وامداد اس کے علاوہ ہے ، امارت شرعیہ کا ہفت روزہ ترجمان نقیب بھی اہتمام کے ساتھ نکلتاہے، جس کے مضامین اچھا سماج بناتے، جانکاری کو بڑھاتے اورملکی حالات وکوائف سے لوگوں کوواقف کراتے ہیں اور مسلمانوں کی ذہنی تربیت میں نمایاں رول ادا کرتے ہیں۔
امارت شرعیہ کے دارالقضاء سے اسلامی قوانین کے مطابق معاملات حل کئے جاتے ہیں ،اس وقت بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ اورمغربی بنگال میں67 دارالقضاء کام کررہے ہیں، دودارالافتاء بھی مسلمانوں کی شرعی رہنمائی کے لئے موجودہے،جن میں سے ایک مرکزی دفتر امارت شرعیہ پھلواری شریف اوردوسرا جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر میں ہے، امارت شرعیہ کے دارالقضاء ودارالافتاء کی ملک اوربیرون ملک میں اپنی بڑی پہچان ہے۔
امارت شرعیہ کا پورا نظام ایک امیرشریعت کے ماتحت چلتاہے،سمع وطاعت اس کی بنیاد واساس ہے، قرآن واحادیث میں بھی امیر کی اطاعت کا حکم دیاگیاہے،امیر کاانتخاب مجلس ارباب حل وعقد کرتی ہے، حضرت امیر شریعت کو مشورہ دینے کے لئے مجلس شوریٰ اورمجلس عاملہ قائم ہے، حضرت امیر شریعت کے فیصلے شعبۂ نظامت کے ذریعہ نافذ ہوتے ہیں۔
حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادریؒ، حضرت مولانا سید شاہ محی الدین قادریؒ، حضرت مولانا سید شاہ قمرالدینؒ، حضر ت مولانا سیدشاہ منت اللہ رحمانیؒ، حضرت مولاناعبدالرحمنؒ ، حضرت مولانا سید نظام الدین اور مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمہم اللہ مختلف ماہ وسال میںامارت شرعیہ کے امیر شریعت رہے، ہر امیر شریعت کی ہدایات کوعلماء، اہل علم اور عوام نے مانا اور اس پر عمل کیا،امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی کی امارت، مولانا سید نظام الدین ؒ کی نظامت اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی قضا کی غیر معمولی صلاحیت کی وجہ سے امارت شرعیہ کو غیر معمولی ترقی حاصل ہوئی، ساتویں امیر شریعت کی حیثیت سے مفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کی قیادت وامارت میں یہ کارواں تیزی سے رواں دواں تھا، کام کا دائرہ وسیع ہورہا تھا اور انتہائی مضبوط بنیادوں پر کام جاری تھا کہ3اپریل 2021 ء کو حضرت کا وصال ہو گیا اور اب یہ کارواں مولانا محمد شمشاد رحمانی نائب امیر شریعت کی قیادت میں حسب سابق حضرت صاحب کے بنائے خطوط اور بتائے راستوں پر گامزن ہے۔
امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی خدمات ہندوستانی مسلمانوں کے تحفظ میں خصوصیت کے ساتھ مثالی رہی ہے ، مسلم پرسنل لاء کی حفاظت کے لیے داخلی وخارجی سطح پر اس کی خدمات کا اعتراف پورے ہندوستان بلکہ ہندوستان سے باہر بھی کیا جاتا ہے، مسئلہ فلسطین کا ہو یا سارادا ایکٹ کا ، شدھی سنگٹھن کی تحریک کا معاملہ ہو یا ارتداد پر قابو پانے کی ضرورت، فساد میں اجڑے ہوئے مسلمانوں کا معاملہ ہو یا سیلاب وزلزلہ کے موقع سے امداد رسانی اور باز آباد کاری کا کام، واردھا تعلیمی اسکیم ہویا اوقاف بل پر نظر ثانی کا معاملہ ، سرکاری نصاب تعلیم سے غیر جمہوری اجزاء کو نکالنے کا مسئلہ ہویا نئی تعلیمی پالیسی پر حکومت کو متوجہ کرنے کا کام، اردو کے تحفظ کا مسئلہ ہو یا دوسری سرکاری زبان بنانے کا ، امارت شرعیہ نے ہر محاذ پر ملک وملت کی مضبوط خدمت کی اور حکومت وقت سے آنکھ سے آنکھ ملا کر اصلاح وترمیم کا کام کیا اور کروایا۔
گذشتہ سال سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف امارت شرعیہ نے منظم تحریک چلائی، امارت شرعیہ کے ذمہ داران نے بہار کے مختلف مقامات پر منعقد احتجاج اور مظاہروں میں عملی طور پر شرکت کی اور اپنے خطاب سے عوام کے اندر اس تحریک کے حوالہ سے بیداری پیدا کی اور حضرت امیر شریعت سابع کی ہدایت کے مطابق شہریت سے متعلق کاغذات میں یکسانیت لانے کی ضرورت واہمیت پر زور دیاگیا، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں مسلمانوں نے شہریت سے متعلق اپنے کاغذات درست کرائے، ووٹر ویری فیکیشن کے کام کو ترجیحی بنیاد پر کرایا گیا، تین طلاق بل کے خلاف خواتین کے دستخط اور احتجاجی مظاہرے کے ذریعہ حکومت کے سامنے اسلامی موقف رکھا گیا اور عورتوں کو اسلامی قوانین کے تئیں حساس بنایا گیا، سیاسی جماعتوں اور وکلاء کے ساتھ الگ الگ پروگرام کرکے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے سلسلے میں انہیں اس کے خلاف چلائی جا رہی تحریک کا حصہ بننے پر آمادہ کیا گیااور قانونی بحث ومباحثہ کے ذریعہ صحیح موقف لوگوں کے سامنے لایا گیا۔بنیادی دینی تعلیم کے فروغ ، اسلامی ماحول میں دینیات کے ساتھ عصری تعلیمی اداروں کے قیام اور تحفظ اردو کے لیے بہار اور جھارکھنڈ میں امارت شرعیہ نے مضبوط تحریک چلائی، جس کے مثبت ، مؤثر اور دو ررس اثرات سامنے آئے۔
اسی طرح کورونا کی وجہ سے لاک بندی کے زمانہ میں امارت شرعیہ نے ہرموقع پر ملت کی بر وقت اور صحیح رہنمائی کی، غریب فاقہ کشوں کے درمیان بلا امتیاز مذہب غذائی اجناس اور ضروری اشیاء کی فراہمی کرائی گئی، جو طلبہ دوسری ریاستوں میں پھنسے ہوئے تھے، انہیں وہاں کے ذمہ داروں سے رابطہ کرکے گھر تک پہونچا نے کا کام کیا گیا، مساجد بند ہونے کی وجہ سے جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے سلسلہ میں شرعی احکام مسلمانوں تک پہونچائے گئے ۔ مختصر یہ کہ جب بھی ملت کو جس قسم کی ضرورت محسوس ہوئی، امارت شرعیہ خدمت کے لیے آگے آئی اور اس نے بر وقت ضرورت کے مطابق اقدام کیے۔
ان سارے کاموں کے لیے رقم کی فراہمی بیت المال کے ذریعہ ہوتی ہے، جس میں مسلمانوں کے صدقات وزکوٰۃ ، عطیات اور قومی محصول کی رقومات جمع ہوتی ہیں، امارت شرعیہ کی کوئی مستقل ذریعہ آمدنی نہیں ہے، اس کے ماہانہ اخراجات چوتیس لاکھ چھیاسٹھ ہزار روپے ہیں، جب کہ تعمیرات اور وقتی امداد رسانی مثل ریلیف وغیرہ کی شمولیت کے ساتھ اس کا سالانہ بجٹ نوکروڑباون لاکھ ستہتر ہزار روپے ہے ،یہ سارے اخراجات عام مسلمانوں کی مدد سے پورے ہوتے ہیں۔
26 جون کو عیسوی سال کے اعتبار سے امارت شرعیہ کی خدمات کے سو سال پورے ہو رہے ہیں، اللہ سے ہم سب کو دعا کرنی چاہیے کہ وہ اس با فیض ادارہ کو ہر قسم کے شرور وفتن سے محفوظ رکھے او ر اس کی خدمات کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر فرمائے، اور ہم کارکنان وخدام امارت شرعیہ کو خلوص وللہیت کے جذبہ سے کام کی توفیق دے، امیر شریعت سادس حضرت مولاناسید نظام الدین ؒصاحب فرمایا کرتے تھے کہ جو کام خلوص وللہیت کے ساتھ کیا جاتا ہے، اس میں اللہ رب العزت کی نصرت اور مدد ضرور آتی ہے۔