تحریر:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
’’ جماعت اسلامی والوں نے یہ کیا الٹی سیدھی حرکتیں شروع کردی ہیں ؟!‘‘ میرے دوست نے مجھے مخاطب کرکے جماعت پر تنقید کی تو میں چونکا _ میں نے عرض کیا : ’’خیریت تو ہے؟ اب جماعت کا کون سا کام آپ کو بُرا لگ گیا ؟‘‘
میرے حلقۂ احباب میں الحمد للہ ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ _ دینی مدارس کے فارغین : قاسمی ، مظاہری ، ندوی ، اصلاحی ، فلاحی ، عمری ، مبارک پوری _ عصری تعلیمی اداروں : علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی یونی ورسٹی ، جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی کے فیض یافتہ _ مختلف مسالک سے وابستہ : وہابی ، بریلوی ، اہل حدیث _ مختلف جماعتوں اور تنظیموں : تبلیغی جماعت ، جمعیۃ علماء ہند ، جمعیت اہل حدیث ہند ، جماعت اسلامی ہند کے کارکنان _ سب مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میں بھی ان کی قدر کرتا ہوں _ بعض احباب ، جو ذرا بے تکلف ہیں ، انہیں جب جماعت اسلامی کے کسی کام پر تنقید کرنی ہوتی ہے تو مجھے ہی مخاطب کرتے ہیں اور مجھ تک اپنا اشکال پہنچاتے ہیں _ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے مجھے جماعت کا ترجمان سمجھ رکھا ہے _۔
میرے سوال پر میرے دوست نے کہا :’’ جماعت اسلامی والوں نے ملک کے مختلف حصوں میں ‘مسجد ’پریچے‘ (تعارف) کے پروگرام شروع کردیے ہیں _ وہ غیر مسلم مردوں اور عورتوں کو مسجدوں میں مدعو کرتے ہیں _ کیا انہیں نہیں معلوم کہ غیر مسلموں کے یہاں پاکی اور طہارت کا کوئی تصوّر نہیں ہے؟ قرآن نے صاف الفاظ میں کہا ہے : اِنَّمَا المُشۡرِكُونَ نَجَسٌ (التوبۃ : 28) ’ مشرکین ناپاک ہیں _‘
میں نے عرض کیا : ’’اس آیت میں معنوی اور روحانی ناپاکی کا بیان ہے ، یعنی شرک کرنے والوں کے اندرون پاک نہیں ہوتے _ وہ اللہ کے ناشکرے اور نافرمان ہوتے ہیں _ یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے جسم گندے ہوتے ہیں _۔‘‘
’’ اگر آیت میں عموم ہے تو آپ لوگ اسے معنوی گندگی کے لیے کیوں خاص کرنا چاہتے ہیں؟‘‘میرے دوست نے اعتراض کیا _۔
’’اس آیت کا تمام مفسرین نے یہی مطلب بیان کیا ہے _ کسی نے بھی اسے ظاہری گندگی کے معنیٰ میں نہیں لیا ہے _ مثال کے طور پر امام نووی شافعی نے لکھا ہے : ” آیت میں نجاست سے مراد اعتقاد کی نجاست اور گندگی ہے _ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے اعضائے جسم پیشاب پاخانہ جیسی چیزوں کی طرح نجس ہیں ‘‘(شرح مسلم : 66/4) علامہ ابو بکر جصّاص حنفی فرماتے ہیں : ” مشرک پر نجس کا اطلاق اس پہلو سے ہے کہ شرک سے ، جس پر اس کا عقیدہ ہے ، اسی طرح اجتناب کیا جائے جیسے نجاسات اور گندگیوں سے پرہیز کیا جاتا ہے _” ( احکام القرآن : 108/3) امام شوکانی نے لکھا ہے :’’جمہور سلف و خلف ، جن میں ائمۂ اربعہ بھی داخل ہیں ، اس طرف گئے ہیں کہ کافر اپنی ذات میں نجس نہیں ہوتا ۔‘‘ ( فتح القدیر :446/2)
میرے دوست نے دوسرا اشکال ظاہر کیا : ’’ بعض فقہاء مساجد میں غیر مسلموں کے داخلہ کو جائز نہیں قرار دیتے _ امام مالک کی یہی رائے ہے _ بعض صحابہ اور تابعین سے بھی یہی رائے منقول ہے ، پھر آپ حضرات کا اصرار انہیں مسجد میں لانے پر کیوں ہے؟ ‘‘
میں نے عرض کیا : ’’یہ بات درست ہے کہ امام مالک کی رائے اس معاملے میں سخت ہے ، لیکن دوسرے ائمہ : امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور امام احمد اسے جائز قرار دیتے ہیں _ موجودہ حالات میں ان کی رائے کو اختیار کرنا قابلِ ترجیح معلوم ہوتا ہے _ اور جہاں تک بعض صحابہ و تابعین کی رائے ہے تو اس معاملے میں ان کی رائے اللہ کے رسول ﷺ کی رائے اور عمل سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی _ آپ نے غیر مسلموں کو مسجدِ نبوی میں ٹھہرایا ہے _۔‘‘
’’ اچھا ، کیا ایسا ہے؟ دو ایک مثالیں دیجیے ‘‘ میرے دوست کی حیرت فطری تھی ۔
میں نے عرض کیا :’ عہدِ نبوی میں مسجد میں غیر مسلم فرد کا بھی داخلہ ثابت ہے اور پورے وفد کا بھی _ غزوۂ بدر کے بعد عمیر بن وہب مدینہ آئے اور مسجد نبوی میں اللہ کے رسول ﷺ سے ملاقات کی _ وہ آپ کو قتل کرنے کے ارادے سے آئے تھے ، لیکن آپ کی باتوں کو سن کر اسلام لے آئے _ (سیرۃ ابن ہشام : 308/2) غزوۂ احزاب کے بعد قبیلۂ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال جنگ میں گرفتار ہوئے _ انہیں لاکر مسجدِ نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا _ اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں دیکھا تو رسّیاں کھول دینے کا حکم دیا اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کی _ اس سے متاثر ہوکر وہ اسلام لے آئے _ ( بخاری : 462 ، مسلم : 1764) صلحِ حدیبیہ کے کچھ عرصہ کے بعد ابو سفیان تجدیدِ معاہدہ کے لیے مدینہ آئے تو وہ مسجدِ نبوی میں بھی گئے _ ( سیرۃ ابن ہشام : 13/4) فتح مکہ کے بعد جب اطراف سے وفود آنے لگے تو نجران سے عیسائیوں کا وفد آیا ، جو 60 افراد پر مشتمل تھا _ اس کے قیام کا انتظام مسجدِ نبوی میں کیا گیا _ غزوۂ تبوک کے بعد قبیلۂ ثقیف کا وفد مدینہ آیا تھا تو اسے مسجد نبوی میں ہی ٹھہرایا گیا _ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ مسجد میں غیر مسلموں کے داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے _۔‘‘
میرے دوست کے اشکالات ابھی ختم نہیں ہوئے تھے _ انھوں نے کہا : ’’لیکن آپ لوگ غیر مسلم مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی بلاتے ہیں _ وہ بے پردہ آتی ہیں ، پھر ان کے یہاں پاکی کا وہ تصور نہیں جو ہمارے یہاں ہے _ ان کے آنے سے مسجد کی روحانیت میں خلل پڑتا ہے _۔‘‘
میں نے عرض کیا : ’’غیر مسلم ایمان لانے سے قبل احکام کے مکلّف نہیں ہیں _ جیسے غیر مسلم مردوں کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے اسی طرح غیر مسلم عورتوں کے لیے بھی اس کی اجازت ہے _۔‘‘
میرے دوست ابھی مطمئن نہیں ہوئے تھے _ انھوں نے کہا :’آپ لوگوں کا اصرار انہیں مسجد کے اندر لانے پر کیوں ہے؟ کیا مسجد کے باہر کسی گھر ، یا ہال میں ان کے پروگرام نہیں کیے جاسکتے؟‘‘
’’ہم مسجد کے باہر بھی ان کے چھوٹے بڑے پروگرام کرتے رہتے ہیں ، لیکن ہم نے سوچا کہ مسجد کے اندر بھی انہیں لانا چاہیے _ اس سے ان کی بہت سی غلط فہمیاں دور ہوں گی _ وہ سمجھتے ہیں کہ مسجدوں میں مسلمانوں کو دوسرے مذاہب والوں کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے _ ان کے دلوں میں دوسروں سے نفرت پیدا کی جاتی ہے _ مسجد کا پاکیزہ ماحول دیکھ کر ان کی غلط فہمی دور ہوگی _ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ مسجدوں میں مسلمان صرف اپنے رب کی عبادت اور اپنا روحانی تزکیہ کرتے ہیں _ ۔‘‘
میرے دوست کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ ان کے اشکالات کا ازالہ ہورہا ہے _ ان کا اگلا سوال تھا :’’ آپ لوگ انہیں مسجد میں بلاکر کیا کرتے ہیں؟ ‘‘
’’ہم انہیں ‘مسجد پریچے‘ کا دعوت نامہ دیتے ہیں کہ وہ فلاں دن فلاں وقت مسجد میں تشریف لائیں _ ساتھ ہی ان سے کہتے ہیں کہ مسجد عبادت کی جگہ ہے اس لیے وہاں پاک صاف ہوکر آنا چاہیے _ چنانچہ وہ نہا دھو کر آتے ہیں _ عورتیں بھی اچھے لباس میں سر ڈھک کر آتی ہیں _ ہم انہیں وضو اور نماز کا طریقہ بتاتے ہیں _ نماز میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس کا ترجمہ انہیں سناتے ہیں _ اسی دوران میں کسی نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو وہ اپنی آنکھوں سے نماز کا مشاہدہ کرتے ہیں _ وہ دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں کوئی اونچ نیچ نہیں ہے _ جو پہلے آتا ہے پہلی صف میں جگہ پاتا ہے _ جو بعد میں آتا ہے اس کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے _ اس کے بعد ہم ان کے ساتھ نشست کرکے انہیں سوالات کرنے کا موقع دیتے ہیں _ ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو اشکالات اور اعتراضات پہلے سے ہوتے ہیں وہ پیش کرتے ہیں اور ہمارے ذمے دار ان کا جواب دیتے ہیں _ اس طرح بہت خوش گوار ماحول میں یہ پروگرام ختم ہوتا ہے _۔‘‘
’’یہ تو بہت اچھا پروگرام ہے _ اس سے ان کی بہت سی غلط فہمیاں دور ہوں گی۔‘‘ میرے دوست نے اظہار کیا ،’’ لیکن غیر مسلموں کے مسجد میں داخلہ کے سلسلے میں عام مسلمانوں کے ذہن صاف نہیں ہیں _ وہ اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں _ اس لیے مسلمانوں کو بھی اس کام کی ضرورت اور موجودہ حالات میں اس کی اہمیت بتانے کی ضرورت ہے _۔‘‘
’ہم اس سلسلے میں بھی کام کررہے ہیں _ ان شاء اللہ ہم اپنے بھائیوں کو بھی اس کا قائل کرنے میں ضرور کام یاب ہوں گے _ اس سلسلے میں آپ جیسے لوگوں کے تعاون کی ضرورت ہے _ ان شاء آپ کے ساتھ مل کر ہم اس کام کو بہتر انداز میں کر سکیں گے ۔‘‘
میرے دوست کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ ان کا اشکال دور ہوچکا ہے _۔