ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
خوش گوار خاندان بہت خوش نصیبوں کو ملتا ہے _ ورنہ آئے دن دیکھنے میں آتا ہے کہ نکاح کے تھوڑے عرصے کے بعد ہی افرادِ خاندان میں کَھٹ پَٹ شروع ہوجاتی ہے ، شکایتیں ہونے لگتی ہیں اور تنازعات سر ابھارلیتے ہیں _ پھر یا تو اسی طرح رنجشوں ، اختلافات اور تنازعات کے ساتھ زندگی کے ایّام گزرتے رہتے ہیں ، یا علیٰحدگی کی نوبت آجاتی ہے _ پھر علیٰحدگی بھی خوش اسلوبی سے نہیں ہوتی ، بلکہ پولیس تھانہ اور کورٹ کچہری کی نوبت آجاتی ہے _۔
جماعت اسلامی ہند نے اس مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے اور پورے ملک میں ‘خاندانی مفاہمتی مراکز(Family Counselling Centers) قائم کیے ہیں ، تاکہ باہمی مفاہمت سے تنازعات کو ختم یا کم از کم کیا جا سکے _ ان مراکز کو چلانے والوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً ورک شاپس منعقد کیے جاتے ہیں _ مغربی بنگال کے کونسلرس ورک شاپ (21_22 اگست 2021) میں راقم سے خواہش کی گئی کہ ‘خاندانی تنازعات _ اسباب اور حل کے موضوع پر اظہارِ خیال کروں _ میری گفتگو کے نکات درج ذیل تھے :
(1) نکاح کا ایک اہم مقصد ازدواجی زندگی میں سکون ہے _ تمام افرادِ خاندان کو یہ مقصد پیش نظر رکھنا چاہیے اور ان باتوں ، کاموں اور حرکتوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے جن سے گھر کا سکون غارت ہو جاتا ہے۔
(2) خاندان میں نسبی رشتہ دار بھی ہوتے ہیں اور سسرالی رشتہ دار بھی زوجین کو چاہیے کہ دونوں کو یکساں اہمیت دیں۔
(3) تنازعات پیدا ہوسکتے ہیں اس صورت میں ان کے اسباب کو تلاش کرکے ان کا ازالہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے _ ذیل میں چند اسباب کی نشان دہی کی جا رہی ہے اور ان کا حل بھی بتایا جا رہا ہے _ ان پر عمل کیا جائے تو زندگی خوش گوار ہو سکتی ہے۔
(4) زوجین کو جلد از جلد اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ ‘مثالیت (Idealism) کی تلاش بے سود ہے کوئی شخص مکمل ( Perfect) نہیں _ جو جیسا ہے ویسے ہی اسے قبول کرنے اور اس کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(5) نکاح کے بعد سابقہ محبت کو فراموش کردینا لازم ہے ممکن ہے ، لڑکا پہلے کسی اور لڑکی سے محبت کرتا ہو اور اس سے نکاح کرنا چاہتا ہو _ اسی طرح لڑکی کی دلی وابستگی کسی اور لڑکے کے ساتھ ہو _ لیکن نکاح کے بعد خوش گوار ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں اپنی محبت کا مرکز اپنے جوڑے کو بنائیں۔
(6) ناشکری کا اظہار خوش گوار تعلقات میں بڑی خرابی پیدا کرتا ہے عموماً لڑکیوں/عورتوں کی طرف سے اس کا اظہار ہوتا ہے شوہر نے زندگی بھر بیوی کا خیال رکھا ہو ، لیکن کسی ایک معاملے میں اس سے کچھ کوتاہی ہوجائے تو بیوی اسے طعنہ دینے لگتی ہے کہ آپ نے میرے لیے کبھی کیا ہی کیا ہے؟ اس سے شوہر کا دل دور ہونے لگتا ہے ہر حال میں شکر گزاری کا جذبہ پیدا کرنا اور اس کا اظہار کرنا ازدواجی زندگی کو خوش گوار بناتا ہے ۔
(7) غصے کے بےجا اظہار سے ازدواجی زندگی میں تلخیاں پیدا ہوتی ہیں بیوی سے لاکھ کوتاہیاں ہوں ، لیکن شوہر کو چاہیے کہ وہ غصے پر قابو رکھے اور معاف کر دینے کی روش اپنائے۔
(8) رشتوں کا احترام نہ کرنے سے دل پھٹ جاتے ہیں ، پھر انہیں رفو کرنا ممکن نہیں ہوتا قرآن و حدیث میں رشتوں کے احترام کا حکم دیا گیا ہے _ شوہر اور بیوی دونوں کو اپنے سسرالی رشتہ داروں کا احترام کرنا چاہیے _ شوہر کو بیوی کے سامنے اس کے رشتہ داروں کی برائی نہیں کرنی چاہیے ، اسی طرح بیوی کو بھی سسرالی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہیے۔
(9) ازدواجی تنازعات کا ایک بڑا سبب عدمِ برداشت ہے زوجین کو تحمّل اور برداشت کی عادت ڈالنی چاہیے _ دوسرے کی کوئی بات ناگوار ہو تو فورا اس پر اپنے ردِّعمل کا اظہار نہیں کرنا چاہیے _ بے قابو زبان فساد کی جڑ ہوتی ہے ، جب کہ برداشت کی عادت بہت سے فتنوں کو جڑ سے اکھاڑ دیتی ہے۔
(10) بہت سے تنازعات خود غرضی اور نفسا نفسی سے پیدا ہوتے ہیں خود غرضی عام زندگی میں پسندیدہ نہیں اور ازدواجی زندگی میں تو اور بھی مذموم ہے _ مرد ہو یا عورت ، اسے ایثار پسند بننا چاہیے خود زحمت اور تکلیف اٹھا کر خاندان کے دوسرے افراد کو آرام پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(11) خاندان کے بہت سے تنازعات لگائی بجھائی سے بھڑکتے ہیں اور شعلۂ جوالہ بن جاتے ہیں کوئی کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کرے تو اسے فوراً روک دینا چاہیے اور کہہ دینا چاہیے کہ اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔
(12) تعلقات بگڑ رہے ہوں تو آگے بڑھ کر انہیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے حدیث میں اس شخص کو افضل کہا گیا ہے جو تعلقات کو سدھارنے میں سبقت کرے۔
(13) غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے شوہر سے ، بیوی سے ، ساس سے ، دیگر افرادِ خاندان سے بھی _ کوئی غلطی سرزد ہو تو اسے تسلیم کرلینے میں دیر نہیں لگانی چاہیے ، بلکہ فوراً اس کا تدارک کرنا چاہیے _ معذرت کر لینے اور Sorry کہہ دینے سے کوئی چھوٹا نہیں ہو جاتا ، بلکہ دوسرے کی نگاہ میں اس کا قد بلند ہوجاتا ہے اور اس سے محبّت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
(14) ساس کو ماں جیسا احترام اور بہو کو بیٹی جیسا پیار دیا جائے تو خاندان میں ساس بہو کے جھگڑے پیدا ہی نہیں ہوں گے اس سلسلے میں ساسوں کو بڑکپن کا مظاہرہ کرنا چاہیے _ ان کو میری نصیحت ہے کہ پیار بانٹیں ، محبت اور احترام ملے گا _ درگزر کریں ، خدمت ملے گی _ بہو کے کاموں میں عیب مت نکالیں ، تنقید نہ کریں ، بلکہ اسے سنبھلنے کا موقع دیں اور وقتاً فوقتاً اس کی تعریف کریں _ ایسا کرنے سے یقینی طور پر گھر کا ماحول خوش گوار رہے گا۔
(15) بہت سے خاندانی تنازعات کونسلنگ سے حل کیے جا سکتے ہیں ۔ کونسلرس کی ذمہ داری ہے کہ وہ تنازعات کے شکار افرادِ خاندان میں اللہ اور رسول کی اطاعت کا جذبہ ابھاریں ، حقوق و فرائض دونوں بتائیں ، اسلامی قانون اور اسلام کی اخلاقی تعلیمات دونوں بتائیں اور بہتر رویہ اختیار کرنے کی تلقین کریں ۔
خلاصہ یہ کہ تنازعات پیدا ہونے کی صورت میں باہمی مفاہمت مسائل کا بہترین حل ہے _ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اگر زوجین اور افرادِ خاندان موافقت و مصالحت کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق دے گا _ (النساء: 35) اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق مرحمت فرمائے _ آمین ، یا رب العالمین _
(یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں)