تیسری صدی ہجری میں مصر میں چار محدثین بہت مشہور ہوئے۔ چاروں کا نام محمد تھا، اور چاروں علمِ حدیث کے جلیل القدر ائمہ میں شمار ہوئے۔ ان میں سے ایک محمد بن نصر مروزیؒ ہیں، دوسرے محمد بن جریر طبریؒ، تیسرے محمد بن المنذرؒ، اور چوتھے محمد بن اسحاق بن خزیمہؒ۔
ان کا ایک عجیب واقعہ حافظ ابن کثیرؒ نے نقل کیا ہے۔ یہ چاروں حضرات مشترک طور سے حدیث کی خدمت میں مشغول تھے۔ بسا اوقات ان علمی خدمات میں انہماک اس قدر بڑھتا کہ فاقوں تک نوبت پہنچ جاتی۔ ایک دن چاروں ایک گھر میں جمع ہوکر احادیث لکھنے میں مشغول تھے، کھانے کو کچھ نہیں تھا، بالآخر طے پایا کہ چاروں میں سے ایک صاحب طلب معاش کے لیے باہر نکلیں گے تاکہ غذا کا انتظام ہوسکے۔ قرعہ ڈالا گیا تو حضرت محمد بن نصر مروزیؒ کے نام نکلا۔ انہوں نے طلبِ معاش کے لیے نکلنے سے پہلے نماز پڑھی اور دعا کرنی شروع کردی۔
یہ ٹھیک دوپہر کا وقت تھا اور مصر کے حکمران احمد بن طولونؒ اپنی قیام گاہ میں آرام کررہے تھے۔ ان کو سوتے ہوئے خواب میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپؐ فرما رہے تھے کہ ’’محدثین کی خبر لو، ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے‘‘۔
ابن طولونؒ بیدار ہوئے تو لوگوں سے تحقیق کی کہ اس شہر میں محدثین کون کون ہیں؟ لوگوں نے ان حضرات کا پتا دیا۔ احمد بن طولونؒ نے اسی وقت ان کے پاس ایک ہزار دینار بھجوائے اور جس گھر میں وہ خدمتِ حدیث میں مشغول تھے اسے خرید کر وہاں ایک مسجد بنوادی اور اسے علمِ حدیث کا مرکز بناکر اس پر بڑی جائدادیں وقف کردیں۔
(البدایہ والنہایہ، ص 103، ج 11، س ، و ص 146، ج 11 سن 321ھ)
(مفتی محمد تقی عثمانی: ”تراشے“)