تہران اور واشنگٹن کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت کا چوتھا دور آج سلطنت عمان کے دار الحکومت مسقط میں شروع ہو گیا۔ ایرانی سرکاری ذرائع ابلاغ نے اس کی تصدیق کی ہے۔ عمانی وزیر خارجہ بدر البوسعيدی نے بتایا کہ یہ مذاکرات آج سے دوبارہ شروع ہو رہے ہیں۔ امریکی ذرائع کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی اسٹیو وِٹکوف بھی ان مذاکرات میں شریک ہوں گے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی بھی اس مقصد کے لیے اتوار کو مسقط پہنچے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی کے مطابق ایک تکنیکی وفد بھی مشاورت کے لیے موجود ہےمذاکرات دراصل تین مئی کو روم میں طے تھے، مگر عمان نے انتظامی وجوہات کے باعث انھیں ملتوی کر دیا تھا۔مذاکرات سے قبل عراقچی نے قطر میں بیان دیا کہ اگر امریکہ کا مقصد ایران کو اس کے جوہری حقوق سے محروم کرنا ہے تو تہران ہرگز پیچھے نہیں ہٹے گا۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ یورینیم کی افزودگی ایران کا نا قابلِ انکار حق ہے اور وہ "صفر افزودگی” کاامریکی مطالبات کو مسترد کر چکا ہے۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ کے نمائندے نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ کسی بھی معاہدے میں ایران کی افزودگی کی تنصیبات کو ختم کرنا ضروری ہو گا، اور صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ اگر نیا معاہدہ نہ ہوا تو ایران پر حملہ ہو سکتا ہے۔رہے کہ امریکہ 2015 کے جوہری معاہدے سے، صدر ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں دست بردار ہو چکا ہے۔ اس کے بعد ایران اپنے جوہری پروگرام میں تیزی لایا۔ مغربی ممالک کا دعویٰ ہے کہ ایران کا ہدف ایٹمی ہتھیار بنانا ہے، جب کہ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا پروگرام صرف پُر امن اور سویلین مقاصد کے لیے ہے۔عراقچی نے واضح کیا کہ ایران، امریکہ سے بالواسطہ مذاکرات نیک نیتی سے کر رہا ہے، اور اگر مقصد صرف ایٹمی ہتھیاروں کو روکنا ہو تو معاہدہ ممکن ہے، لیکن اگر ایران کے بنیادی جوہری حقوق محدود کیے گئے تو ایران پیچھے نہیں ہٹے گا