تحریر:ڈاکٹر سلیم خان
صدر جو بائیڈن نے خارجہ پالیسی پر اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ آزاد پریس جمہوریت کی صحت کے لیے لازم ہے ۔دنیا بھر میں فی الحال جمہوریت کا غلبہ ہے اس کے باوجود حاکم و محکوم کے درمیان تقسیم کاریوں ہے کہ اقتدار کی کرسی پر فائزلوگوں کا کام اپنے من کی بات بولنا ہے ۔ عوام جواس کرسی کو اپنے کندھے پر لاد کر چلتے ہیں ان کا فرض منصبی چپ چاپ سرجھکا کر سننا ہے۔ سماج میں جب تک ان حدود و قیود کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے اس ضابطۂ اخلاق کی پابندی کی جاتی ہے امن و امان قائم رہتا ہے لیکن اگر کوئی بھولا بھٹکا سلگتا سوال کردے تو عالم پناہ ناراض ہوجاتے ہیں۔ رعونت کا یہ عالم ہے کہ حکمرانوں کو وہ سوالات بھی تلخ لگتے ہیں جن کا تعلق مفادِ عامہ سے ہو اور عوام کواس کی تلخی کا احساس بھی نہ ہو ۔ ناراض ہونے کے لیے کسی حکمراں کا مودی یا ٹرمپ ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ بائیڈن جیسا پختہ کار اور نرم خو نظر آنے والے بھی اپنا آپہ کھودیتے ہیں۔ امریکی صدر صرف اپنے من کی بات پر اکتفاء نہیں کرسکتا کیونکہ اس پر صحافیوں سے گفت و شنید لازمی ہے۔ اس مجبوری نے ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کے کئی پہلو اجاگر کیے اور بالآخر جو بائیڈن کے چہرے پر پڑی خوبصورت نقاب کو بھی تار تار کردیا ۔
قصہ یہ ہے کہ قصر ابیض میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں قدامت پسند جماعت کے ہمنوا چینل ’فاکس نیوز‘ کے نمائندے نے امریکی صدر سے مہنگائی سے متعلق سوال کیا کہ ’کیا وسط مدتی انتخاب سے قبل ملک میں موجود مہنگائی سیاسی بوجھ ہے؟‘یہ ایک نہایت سادہ سوال ہے جس میں بظاہر کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے۔ اس کے باوجود جو بائیڈن نازک طبع پر یہ استفسار اتنا گراں گزرا کہ وہ بھول گئے مائیکروفون چل رہا ہے۔ انہوں نے مہنگائی سے متعلق سنجیدہ سوال کو مذاق میں ٹالتے ہوئے کہا کہ ’مہنگائی بڑا اثاثہ ہے‘، مزید مہنگائی، پھر ہلکی آواز میں صحافی کو بیوقوف کتے کا بچہ کہہ کر گالی دےدی ۔ اس تضحیک کو دنیا کی عظیم ترین جمہوریت میں بڑے آرام سے برداشت کرلیا گیا ۔ سوال کرنے والے صحافی پیٹر ڈوسی سے جب اس کی بابت دریافت کیا گیا تو اس نے کہا کہ ’شور کے باعث میں سن نہیں سکا کہ صدر جو بائیڈن نے کیا کہا‘۔بعد ازاں ڈوسی پیٹر نے فاکس پر دیئے گئے انٹرویو میں اس واقعے سے متعلق پوچھے جانے پرخاموشی اختیار کرلی اور اسے ٹالتے ہوئے بے نیازی سے بولے اب تک کسی نے اس بارے میں حقیقت کو جانچنے کی کوشش نہیں کی ۔ یہ تو امریکہ کے آزاد میڈیا کا حال ہے۔
وائٹ ہاؤس نے اس معاملے کے اعتراف میں کوئی عار یا پریشانی محسوس نہیں کی بلکہ پروگرام کے جاری کردہ اپنے ٹرانسکرپٹ میں اس گفتگو کو شامل کرلیا۔اس طرح اب یہ مذموم واقعہ امریکہ کی سرکاری تاریخ کا روشن باب بن گیا ہے۔وطن عزیز میں مغرب کی مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ اس کا عیب بھی لوگوں کو خوبی لگتا ہے۔ یہی معاملہ شمالی کوریا اور یا کسی مسلم ملک میں رونما ہوگیا ہوتا تو مشرق و مغرب میں اس پر نہ جانے کتنا ہنگامہ برپا ہوجاتا۔امریکہ کے اندر ذرائع ابلاغ کی آزادی کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ تقریباً ڈیڑھ سال قبل (جولائی ۲۰۲۰) میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس وقت جو بائیڈن نے صدارت کے امیدوار کی حیثیت سے اپنی مہم کے دوران مسلمانوں سے کچھ وعدے کرنے کی جرأت کردی تھی۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اندر مسلمانوں ہندوستان کی طرح کثیر تعداد میں نہیں ہیں کہ انتخابات پر کسی نہ کسی حد تک اثر اندا ز ہوسکیں ۔ وہاں پر مسلمانوں کی آبادی صرف 35 لاکھ یعنی مجموعی آبادی کا تقریباً 1.1 فیصد ہیں۔ اس لیے عام طور پر انتخابات میں کوئی جماعت مسلمان رائے دہندگان کوقابلِ التفات نہیں سمجھتی مگر جو بائیڈن کا معاملہ کچھ مختلف تھا۔ انہوں نے مسلمانوں پر توجہ دی تو وائس آف امریکہ اردو (نشریات ) میں بیٹھے مسلمان خوش ہوگئے اور انہوں نے جوش میں آکر اس خبرکو نشر کردیا۔ وی اور اے اردو نے اعلان کیا کہ ‘امریکہ کی کچھ اہم ریاستوں میں مسلمان ووٹرز کی تعداد آئندہ انتخاب میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے، 2016 ؍انتخاب میں امریکی صدر 11 ہزار سے کم ووٹس کے ساتھ مشی گن میں کامیاب ہوئے تھے جبکہ اس ریاست میں 15 لاکھ مسلمان ووٹرز ہیں’۔
اس خبر کے ساتھ وی او اے کی اردو ویب سائٹ پر ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں جوبائیڈن ایک غیرمنافع بخش امگیج ایکشن کی جانب سے منعقدہ تقریب میں مسلمان ووٹرز سے خطاب کر تے نظرآرہے تھے۔ اس ویڈیو میں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ‘پہلے ہی دن’ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مبینہ مسلمان مخالف اقدامات کو ختم کردیں گے ساتھ ہی مسلمانوں پر زور دیا تھا کہ وہ ‘اسلاموفوبیا’ کو شکست دینے کے لیے انہیں ووٹ دیں۔ اس بیان میں بظاہر کوئی متنازع بات نہیں ہے اس کے باوجود تقریباً ایک ہفتے بعد ٹرمپ کے کچھ حامیوں نے اس ویڈیو کو وائس آف امریکہ بھی چلانے والے ادارے امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا (یو ایس اے جی ایم) کے مدیر اعلیٰ مائیکل پیک کو روانہ کردیا۔ مائیکل پیک اس اعتراض کو نظر انداز بھی کرسکتے تھے لیکن ایسا کرنے سےسابق عالم پناہ کی ناراضی کا خطرہ تھا ۔ اس لیے انہوں نے فوری طور پر اس بات کا پتہ لگانے کے لیے تحقیقات کا حکم دیا کہ کیسے اور کیوں یہ ویڈیو نشر کی گئی۔
امریکہ کے معاشرے میں جہاں آزادیٔ اظہار پر فخر کیا جاتا ہے اس خبر کو امریکی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دے کر نشریہ کے لیے ذمہ دار عملہ کو جوابدہ ٹھہرانے کی کارروائی کا آغاز کیا گیا ۔ مذکورہ خبر سے پریشانی کی ایک وجہ اس ویڈیو میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 2 سب سے بڑی حریف، ڈیموکریٹک کانگریس وومن منی سوٹا کی الہان عمر اور مشی گن کی راشد طلیب کا نظر آنا تھا۔ امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا نے وی او اے کے ٹوئٹر، انسٹاگرام اور فیس بک اکاؤنٹس پر شیئر کیے جانے والے اس مواد کو بھی ہٹا دیا اور وفاقی قانون کی خلاف ورزی کے زاویہ سے کارروائی پر غور وخوض شروع ہو گیا ۔ اس وقت امریکی میڈیا میں ‘کچھ وی او اے اردو کے ملازمین’ سے اس مواد کے نشر ہونے پر تحقیقات کی خبر آئی اور مائیکل پیک نے اس کا بلاواسطہ اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات مکمل ہونے پر ج لوگ و ذمہ دار پائے جائیں گے ان سے ‘تیز اور منصفانہ طریقے’ پر نمٹا جائے گا۔ اس طرح کی دھونس اور دھمکی اگر صحافت کی ا ٓزادی ہے تو صحافتی غلامی کس چڑیا کا نام ہے ؟
امریکہ چونکہ دنیا کی سب سے عظیم جمہوریت ہے اس لیے بہت سے لوگوں کو یہ خوش فہمی ہوگی کہ وہ ذرائع ابلاغ کی آزادی کے معاملے میں اگر نمبر ایک نہ سہی تو کم ازکم پہلے پانچ میں ضرور ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے۔ پریس کی آزادی کے سلسلے میں جو فہرست مرتب کی جاتی ہے اس میں فی امریکہ 2020 کے اندر عالمی سطح پر 180 ممالک میں 45 ویں نمبر پر تھا۔ اس گراوٹ میں سابق صد ر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ منتخب ہوتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے ذرائع ابلاغ کو ‘بددیانت’ قرار دےدیا تھا۔ یویارک ٹائمز جیسے مؤقر اخبار کی بابت ان کا کہنا تھا کہ وہ ‘غلیظ لب و لہجے میں میری غلط کوریج کرتے ہیں۔’ یہ سلسلہ ان کی مدت کار کے دوران جاری و ساری رہا۔ سن 2018 میں تو صدر ٹرمپ نے میڈیا کی رپورٹس کو ’جعلی خبریں‘ قرار دیتے ہوئے نہ صرف تمخسر اڑایا بلکہ صحافیوں پر زبانی حملے کرتے ہوئے انھیں ’ لوگوں کا دشمن قرار دے دیا تھا۔‘
اس تبصرے پر خوب بوال مچا اور ٹرمپ کے خلاف امریکہ کےتقریباً تین سو میڈیا اداروں نے ناراض ہوکر آزادی صحافت کی مہم چھیڑ دی تھی ۔ اس بابت بوسٹن گلوب کہ صدر ٹرمپ کی’تضحیک آمیز جنگ‘ کے خلاف ملک گیر تحریک کا اعلان کیا تھا ۔بوسٹن گلوب کو ابتدا میں میڈیا کے 100 اداروں سے مثبت ردعمل ملا تھا لیکن آگے چل کر یہ تعداد 350 پر پہنچ گئی۔ اس تحریک میں امریکہ کے نمایاں قومی اخبارات سے چھوٹے اخبارات تک شامل تھے ہیں۔ بوسٹن گلوب نے اپنے اداریے لکھا تھا کہ آزاد میڈیا دو سو برسوں سے اہم امریکی ستون رہا ہے۔ اس وقت ایک سروے سامنے آیا جس کے مطابق 65 فیصد عوام یہ سمجھتے تھے کہ میڈیاکو جمہوریت کا اہم حصہ رہنا چاہیے لیکن ریپبلکن جماعت کے لوگوں کی کیفیت اس سے مختلف تھی۔ اس کے 51 فیصد ووٹر یہ سمجھتے تھےکہ’ میڈیا جمہوریت کا اہم حصہ نہیں بلکہ لوگوں کا دشمن ہے۔
میڈیا نے صحافتی آزادی کی مہم ٹرمپ کے بیانات کے نتیجے میں امریکی میڈیا پر دباؤ میں اضافہ کے سبب شروع کیا تھا۔ نجی ٹی وی چینل سی این این نے اس کی تصدیق میں ایک فوٹیج بنائی تھی جس میں صدر ٹرمپ کے حامی فلوریڈا کے جلسے کو کور کرنے والے صحافیوں پر تضحیک آمیز فقرے کستے ہوئے نظر آتے تھے۔اس کے باوجود ٹرمپ کے 52 فیصد حامیوں کو اس بات پرکوئی تشویش نہیں تھی کہ صدر ٹرمپ کی تنقید کے نتیجے میں صحافی تشدد کا شکارہوسکتے ہیں ۔ ایسا ہونا فطری بات ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں ایم ایس این بی سی سے وابستہ صحافی میکا برینزسكی کو ‘پاگل میکا’ اور ان کے ساتھی میزبان جو سکار برو کو ‘پاگل جو’ کہہ دیا تھا ۔ امریکہ میں پریس کے خلاف جنون کا یہ عالم تھا کہ قصر ابیض کی ترجمان اپنے صدر کے بیان کی حمایت میں کہہ دیا ‘مجھے لگتا ہے کہ امریکی لوگوں نے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے جو مضبوط، سمارٹ اور لڑنے والا ہے، وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی حیرت کی بات ہے کیونکہ وہ آگ کے خلاف آگ سے لڑتے ہیں۔’ دنیا کی عظیم ترین جمہوریت میں اگر صحافیوں کی یہ حالت ہے تو ہندوستان کی مسکین جمہوریت کے اندر گودی میڈیا کے وجود پر کسی کوحیرت نہیں ہونی چاہیے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)