قطر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور فریقین کی جانب سے جنگ بندی کے کسی معاہدے پر پہنچنے کی تاحال تصدیق نہیں کی گئی تاہم غربِ اردن کی ایک سیاسی جماعت فلسطینی نیشنل انیشیٹو کے رہنما کو لگتا ہے کہ حماس نے جنگ بندی کے موجودہ معاہدے کو قبول کر لیا ہے۔فلسطینی سیاسی جماعت کے رہنما مصطفیٰ برغوثی نے بی بی سی ریڈیو فور کو بتایا کہ ’معاہدہ اب تقریباً تیار ہو چکا ہے اور میرے خیال میں فلسطینی سائیڈ اس پر اتفاق بھی کر چکی ہے۔‘جب ان سے واضح الفاظ میں پوچھا گیا کہ کیا حماس نے معاہدے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں بالکل یہ کہہ سکتا ہوں کہ حماس نے تمام شرائط قبول کر لی ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ یہ معاہدہ اس معاہدے کی طرح ہے جو گذشتہ برس جولائی میں تجویز کیا گیا تھا اور اسے بنیامین نتن یاہو نے نقصان پہنچایا تھا۔‘
خیال رہے کچھ دیر پہلے حماس نے قطر میں جاری مذاکرات پر ’اطمینان‘ کا اظہار کیا تھا اور ایک اسرائیلی حکومتی عہدیدار نے بھی بی بی سی کو تصدیق کی تھی کہ بات چیت کے دوران ’حقیقی پیشرفت‘ دیکھنے میں آئی ہے۔ متوقع معاہدے میں کیا کیا نکات شامل ہیں؟اسرائیل اور حماس کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے میں شامل تفصیلات تاحال جاری نہیں کی گئی ہیں۔تاہم بی بی سی کو ایک اسرائیلی حکومتی اہلکار نے بتایا ہے کہ ’نومبر 2023 کے بعد ہم پہلی مرتبہ حماس کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ وہ (حماس) مذاکرات کا کھیل نہیں کھیل رہے۔‘ان کا کہنا ہے تھا وہ کسی معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں لیکن ’یہ کوئی حتمی بات نہیں۔‘اسرائیلی حکومتی عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے میں حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے 33 افراد کو رہا کیا جانا ہے اور اس حوالے سے ایک فہرست ان کو دی گئی ہے تاکہ تصدیق ہو سکے کہ ان میں سے کتنے افراد زندہ ہیں۔
اسرائیلی حکومتی اہلکار نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ یرغمالیوں کے بدلے میں متوقع طور پر رہا کیے جانے والے ’سینکڑوں‘ فلسطینی قیدیوں کی سکیورٹی کے حوالے سے انتظامات پر بھی غور جاری ہے۔
اسرائیل چاہتا ہے کہ قتل کے مقدمات میں سزا یافتہ قیدیوں کو غرب اردن میں نہ چھوڑا جائے۔اس اسرائیلی حکومتی عہدیدار کے مطابق اسرائیل متوقع جنگ بندی کے پیشِ نظر سکیورٹی انتظامات پر بھی غور کر رہا ہے جس میں غزہ اور اسرائیل کی سرحد پر ایک بفر زون برقرار رکھنا شامل ہے تاکہ ملک کے شمالی علاقوں میں واپس آنے والے افراد کی نگرانی کی جا سکے اور حماس کی جانب سے اسلحہ سمگل کرنے کی کوشش کو روکا جا سکے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں حماس کے اتحادیوں کا کمزور ہونا، مسلح گروہ پر اندرونی دباؤ اور مذاکراتی عمل میں امریکی انتظامیہ کی دلچسپی کے سبب معاہدے کے ’نئے امکانات‘ پیدا ہوئے ہیں تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ’جب تک ہمارے تمام یرغمالی گھر واپس نہیں لوٹ جاتے ہیں ہم غزہ کی پٹّی کو نہیں چھوڑیں گے۔‘