گزشتہ ہفتے افغانستان کے حوالے سے دو اہم خبریں سامنے آئیں جن میں طالبان حکومت کی جانب سے خواتین اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے اخلاقیات کے نام سے سخت قوانین کی منظوری اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے طالبان سفیر کی اسناد قبول کرنا شامل تھا۔
سفارتی محاذ پر طالبان کے نمائندے کو تسلیم کیے جانے کو ملک پر2021 سےحکومت کرنے والے لیکن بین الاقوامی طور پر تنہا گروپ نے اپنی کامیابی قرار دیا ہے۔۔
اس تناظر میں سوال یہ اٹھتا ہےکہ اگر امریکہ اور دیگر مغربی ملک افغانستان کو سفارتی طور پر تنہا چھوڑنے کے بجائے اس سے کسی صورت میں تعلقات رکھتے تو کیا مذاکرات یا معاشی امداد کے ذریعہ طالبان کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوسکتے تھے؟
افغان امور پر نظر رکھنے والے بعض ماہرین کے مطابق اس بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر کہا نہیں جا سکتا کیونکہ افغانستان کی صورت حال بہت پیچیدہ ہے – دنیا اب بھی اس معاملے پر منقسم نظر آتی ہے۔
واشنگٹن میں "اسٹمسن” تھنک ٹینک میں جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر الزبتھ تھریل کیلڈ طالبان سے تعلقات کےحوالے سے پائی جانے والی تقسیم کے حوالے سے کہتی ہیں کہ بعض مبصرین نے جون میں ہونے والے دوحہ مذاکراتی عمل میں طالبان سے رابطوں پر بھی تنقید کی تھی کیونکہ وفد میں کوئی خاتون نہیں تھی ۔
ان کے بقول ناقدین کا کہنا ہے کہ اس عمل میں عالمی شرکت سے طالبان کو ترغیب ملی اور وہ خواتین کے بارے میں اپنی سخت پابندیوں والی من مانی پالیسیاں بنا سکے۔
دوسری طرف، الزبتھ تھریل کیلڈ، جو سابق امریکی سفارت کار بھی ہیں، کہتی ہیں کہ اس کے مخالف مبصرین کاکہنا ہے کہ دنیا نے افغانستان میں اپنے مقصد سے نظریں ہٹا کرطالبان کو موقع دیا ہے کہ وہ خواتین کے بارے میں ضوابط پر عمل دارآمد کرا سکیں۔
۔انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا،” حقیقت تو یہ ہے کہ عالمی برادری کا طالبان پر بہت ہی محدود اثرو رسو خ ہے۔ طالبان نے گزشتہ کچھ سالوں میں اپنے اقتدار کو مضبوط کرلیا ہے ۔”
دارالحکو مت واشنگٹن میں قائم”دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ” میں افغانستان اور پاکستان پروگرام کے ڈائریکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ طالبان پر دباؤ ڈالنے اور ان کو عالمی اسٹیج پر تنہا کرنے کی پالیسی ناکام ہو چکی ہیں۔
غانستان میں اس وقت طالبان کا کوئی متبادل دکھائی نہیں دے رہا اور اگر طالبان کی حکومت کمزور پڑتی ہے تو بہت ابتری ہوگی اور سلامتی کے چیلنجز درپیش ہوں گے۔
ڈاکٹر وائن بام نے وائس آف امریکہ کو بتایا،”میں تو کہوں گا کہ موجودہ حالات میں اگر افغان ریاست کمزور پڑتی ہے تو افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپ سر اٹھالیں گے اور اپنے آپ کو مضبوط کرلیں گے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس تناظر میں امید ہے کہ طالبان افغانستان میں موجود داعش خراساں اور دوسرے گروپوں کے خلاف کارروائیاں کریں گے تاکہ وہ خطے اور دنیا کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔”اس سلسلے میں ماہرین نشاندہی کرتے ہیں کہ وسطی ایشیائی ملکوں، چین اور جنوبی ایشیائی ملکوں نے پہلے ہی طالبان کے دور حکومت میں افنغانستان سے اقتصادی و تجارتی تعلقات بڑھالیے ہیں اور کابل میں کچھ یورپی ممالک کی نمائندگی بھی ہے۔
البتہ وہ امریکہ کی افغانستان میں سفارتی موجودگی کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے امریکہ کو ملکی حالات کی ایک واضح تصویر مل سکتی تھی۔
ڈاکٹر وائن بام کہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان کے معاملے پر 2021 کے انخلا کے بعد تنہائی کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے باوجود اب بھی جنوبی اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ملک کے لیے سب سے بڑا عالمی امداد دہندہ ہے جو مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعہ افغان عوام کو پہنچائی جاتی ہے۔ اس امداد سے یقنناً افغان معیشت کو بھی استحکام میں مدد ملتی ہےڈاکٹر وائن بام بھی کہتے ہیں کہ اندرونی اور دیرپا تبدیلی افغان عوام ہی لا سکتے ہیں لیکن اس میں وقت درکار ہو گا۔(وائس آف امریکہ)