تحریر:,سیلن گیریٹ اور کیٹ فوربز
یمن میں حوثی اہداف کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھنے والی امریکہ، آسٹریلیا، بحرین، کینیڈا اور ہالینڈ کی بین الاقوامی ٹاسک فورس کے لیے فتوحات حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔
ایران کی مالی مدد سے حوثیوں کی جانب سے نومبر کے وسط سے لے کر اب تک بحیرہِ احمر میں بین الاقوامی اور تجارتی جہازوں پر 30 سے زیادہ حملے کیے جا چکے ہیں اور ان کے ختم ہونے کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔
23 جنوری کو ایک بریفنگ میں امریکی دفاعی اہلکاروں نے کہا کہ ’ہم بحیرہ احمر اور بین الاقوامی تجارتی راستوں کے استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اور ان حملوں کا جواب دینے کے لیے مزید اقدامات لینے کے لیے تیار ہیں۔‘ان حملوں سے جہاز رانی کی عالمی صنعت متاثر ہوئی ہے اور اس تشویش میں بھی اضافہ ہوا ہے کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔
کیا امریکہ ایک ایسے گروپ کے خلاف فتح حاصل کر سکتا ہے جس کے خلاف سعودی عرب تقریباً ایک دہائی تک لڑتا رہا لیکن ناکام رہا؟
سعودی عرب نے بحیرہ احمر میں ہونے والی ان کارروائیوں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ سعودی عرب کے حوثیوں کے ساتھ امن مذاکرات فی الحال جاری ہیں۔
ان حملوں سے قبل سفارتی کوششوں سے بحیرہِ احمر میں صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
یمن کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹم لینڈرکنگ کا کہنا ہے کہ ’یہ افسوسناک ہے کہ صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے۔‘
یمن کے سب سے زیادہ آبادی والے علاقوں پر قابض حوثیوں کا کہنا ہے کہ ان کے یہ حملے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہیں کیونکہ اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا۔
تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے ولیم ویچسلر کا ماننا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے پاس طاقت کے بل بوتے پر جواب دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بین الاقوامی تجارت میں آٹھ بنیادی سمندری چوکیاں ہیں، جن میں سے نصف مشرق وسطیٰ میں ہیں۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ توانائی کی فراہمی کے حوالے سے بھی دنیا کا اہم حصہ ہے۔ حوثیوں نے ان سمندری چوکیوں میں سے ایک ( آبنائے باب المندب) کو براہ راست دھمکی دی جو انتہائی غیر معمولی ہے۔‘’کوئی بھی شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ توانائی کا ہماری روزمرہ کی زندگی کو بہتر بنانے میں کیا کردار ہے، جو کوئی بھی معاشی ترقی کی پرواہ کرتا ہے، اسے ان اہم چوکیوں کی حفاظت کی اہمیت سمجھنی ہو گی
جیمز گورڈن فوگو امریکی بحریہ کے ایک ریٹائرڈ ایڈمرل ہیں اور اب سینٹر فار میری ٹائم سٹریٹجی سے وابستہ ہیں۔ وہ یورپ اور افریقہ میں امریکی بحری افواج کے سابق کمانڈر بھی رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ یہ سارا معاملہ ایرانی اثر و رسوخ کے خلاف ایک بڑی کارروائی میں تبدیل ہو جائے۔ اور یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس پرانتظامیہ اب تک عوامی سطح پر کھل کر بات نہیں کر رہی مگر یقیناً وہ اس کے بارے میں سوچ ضرور رہے ہوں گے۔
انھوں نے اس سلسلے میں خلیج عرب میں 1980 سے 1988 تک ٹینکر جنگوں کے بارے میں حالیہ میڈیا بریفنگ کی یاد دلائی۔ ایران کی جانب سے جہاز رانی والے ٹینکروں پر حملے کے بعد امریکہ نے ایرانی بحریہ پر حملہ کر دیا تھا۔ ایڈمرل فوگو نے اس کا موازنہ یو ایس ایس کول پر حملے سے کیا جسے اکتوبر 2000 میں یمن میں دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں 17 امریکی ملاح ہلاک ہو گئے تھے۔
ماہرین کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی یمن کے بارے میں سامنے آنے والی حکمت عملی سے لگتا ہے کہ ان کا مقصد حوثی جنگجوؤں کو کمزور کرنا ہے۔ مگر یہ پالیسی اس گروپ کو شکست دینے یا حوثیوں کے مرکزی سرپرست ایران سے براہِ راست مقابلہ کرنے کی بات نہیں کرتی۔
امریکی حکمت عملی محدود فوجی کارروائیوں اور پابندیوں پر مشتمل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے جیسے اس کا مقصد حوثیوں کو سزا دینا ہے اور مشرق وسطیٰ میں کسی بڑے تنازعے کو پیدا ہونے سے روکنا ہے۔
امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے برائن کارٹر کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں اس مشن کا بنیادی مقصد حوثیوں کو تباہ کرنا یا یمنی حکومت کو دوبارہ اقتدار میں لانا نہیں ہے۔
بہت سے لوگوں کو شاید یہ احساس نہیں کہ غزہ کی حمایت کے علاوہ حوثیوں کے اپنے بھی کئی مقاصد ہیں۔
حالیہ تصادم انھیں امریکہ سے لڑنے کے اپنے کئی دہائیوں پرانے دعوے کو درست ثابت کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حوثی نہ صرف لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، بلکہ انھوں نے ’مقدس زمین پر فتح اور جہاد‘ کے لیے بھرتی کی ایک بڑی مہم کامیابی سے چالا رہے ہیں۔
ہشام العمیسی کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب مقامی سطح پر امریکہ اور برطانیہ مخالف جذبات اپنے عروج پر ہیں، اس معاملے کو خالصتاً فوجی تناظر میں دیکھنا اور اس کے سماجی و سیاسی اثرات کو یکسر نظر انداز کر دینا دانشمندانہ بات نہیں۔
بشکریہ:بی بی سی