رام پور: ( محمد مسلم غازی)
جامع القرآن، ذو النورین ، خلیفۂ سوم سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کا آج یوم شہادت ہے۔ حضرت عثمان کی شہادت تاریخ اسلام کا افسوس ناک باب ہے۔ حضرت عثمان کی شہادت در اصل یہودیوں کی ریشہ دوانیوں کا پیش خیمہ تھا۔ اس کے بعد کلمہ گو باہم ایسے دست و گریباں ہوئے کہ ایک دوسرے کی تلوار سے تقریبا ً ایک لاکھ کلمہ گو شہید ہوگئے۔ جنگ صفین ، جنگ جمل اور جنگ مروان وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ یہ بات معروف عالم دین مولانا عبد الخالق ندوی نے کہی۔
جامعۃ الصالحات میںتدریسی فرائض انجام دینے والے امیر مقامی جماعت اسلامی ہند مولانا عبد الخالق ندوی نے کہا کہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر یمن میں رہنے والا عبد اللہ ابن سبا مدینہ آتا ہے۔ حالات کا جائزہ لیتا ہے کہ پانی کہاں مر رہاہے۔ مسلمانوں میں آپسی انتشار کیسے پیدا کیا جائے۔ چنانچہ حضرت عثمان غنیؓ کے خلیفہ بننے کے بعد اس نے بنو امیہ اور بنو ہاشم میں ایک زمانہ سے چلی آرہی قبائلی عصبیت کو ہوا دی۔ اس نے کہنا شروع کیا کہ خلافت کے اصل حقدار بنو ہاشم ہیں اور عثمانؓ بنو امیہ میں سے ہیں۔ لہٰذا انھیں معزول کیا جائے۔ اس نے کہا کہ حضرت عثمانؓ غاصب ہیں، حضرت علیؓ کے تعلق سے اس نے کہا کہ ان میں معاذ اللہ خدا حلول کئے ہوئے ہے۔ لہٰذا اس نے حضرت عثمانؓ پر تنقیدیں شروع کیں۔ شام کے گورنر کے خلاف دمشق میں اور دمشق کے گورنر کے خلاف مصر میں ایک دوسرے کے خلاف بد گمانیاں اور سازشیں شروع کیں۔ عبد اللہ ابن سبا نے اس ساز ش کے ذریعہ فتنہ کی آگ اس قدر بھڑکائی کہ مصر سے بلوائی جن کی تعداد تقریباً 1800 تھی ایسے وقت مدینہ آئے جب کہ وہاں کے مکینوں کی ایک بڑی تعداد فریضۂ حج ادا کرنے گئی ہوئی تھی۔ بلوائیوں نے مدینہ پر قبضہ کرلیا۔
حضرت عثمانؓ پر مختلف قسم کے الزامات لگائے، حضرت علیؓ نے مسجد نبوی میں ان الزامات کے جوابات دیئے لیکن بلوائی مطمئن نہ ہوئے۔ بلوائیوں نے حضرت عثمان غنیؓ کے مکان کا تقریباً 40 دن محاصرہ جاری رکھا۔ شام کے گورنر امیر معاویہؓ نے حضرت عثمان ؓ سے کہا کہ آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔ مصر سے عمر و بن عاص نے بھی فوجی لشکر لیکر آنے کی اجازت مانگی لیکن حضرت عثمانؓ نے روک دیا کہ ہرگز نہیں، اگر یہ مجھے قتل کردیں تو تم قصاص لے لینا۔
حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت علیؓ نے کہا کہ آپ اجازت دیں، ہم ان کا قلع قمع کردیں گے۔ لیکن خلیفۃ المسلمین نے کہا کہ ہر گز نہیں۔ حضرت عثمانؓ نے کہا کہ مجھ سے یہ نہ ہوگا کہ رسولؐ کا خلیفہ ہوکر خود ہی آپؐ کی امت کا لہو بہاؤں۔ حضرت عثمان غنیؓ نے کہا کہ نبیؐ نے مجھ سے فرمایا تھا ایک دن اللہ تمھیں خلافت کی قمیص پہنائے گا۔ جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے ہر گز مت اتارنا۔ یہاں تک کہ مجھ سے آن ملو(شہید ہوجاؤ) لہٰذا میں اس عہد پر قائم ہوں اور صبر کررہا ہوں۔ چنانچہ باغیوں کی شورش میں خلیفۂ سوم نے صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا اور اس طرح 82 سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان کو ایک بلوائی نے مکان کے عقب سے گھر میں کود کر انتہائی بے دردی سے ایسی حالت میں شہید کر دیا جب کہ آپ تلاوت کلام الہی میں مشغول تھے۔
مولانا عبد الخالق ندوی نے کہا کہ تاریخ اسلام میں کوئی ایک مثال نہیں ملتی کہ کسی حکمراں کے خلاف کچھ باغی جمع ہوجائیں اور حکمران عظیم الشان سلطنت کا مالک ہو۔ اپنی ذات کے تحفظ کیلئے جاں نثار صحابہ کی ایمانی قوت سے لبریز فوج جس نے فرانس و یورپ کے مختلف ممالک میں اسلام کے آفاقی نظام کو پہنچایا اور رائج کیا۔ بلوائیوں کے سر دھڑ سے الگ کرنے کے لئے صرف ایک اشارہ کی منتظر ہو۔ بار بار حکمران سے باغیوں کی سرکوبی کا مطالبہ کررہے ہوں۔ لیکن وہ خلیفۃ المسلمین محض اس سبب سے ان لوگوں کو باغیوں سے جنگ کی اجازت نہیں دیتا کہ کہیں ایک جان کی بقا کیلئے سیکڑوں جانیں تلف نہ ہوجائیں۔
بلوائیوں کی سرکوبی کے لئے صرف خلیفہ عثمان کی اجازت کی ضرورت تھی لیکن انھوںنے بار بار یہی کہا کہ میں اپنی ذات اور اپنی خلافت کے خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتی ہوئی نہیں دیکھ سکتا۔ ان کے سامنے وہ واقعہ بھی تھا کہ نبیؐ سے جب حضرت عمر نے عبدا للہ بن ابی کو قتل کرنے کی اجازت مانگی تو نبیؐ نے کہا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اب محمدؐ نے اپنے ساتھیوں پر حملہ شروع کردیا۔ کچھ بھی ہو ان کو کلمہ کا تحفظ حاصل ہے۔ مدینہ کے بلوائی بھی کلمہ کی ڈھال لئے ہوئے تھے ورنہ ان کا انجام کیا ہوتا وہ ہم سب جانتے ہیں۔ انھوں نے کہا حضرت عثمانؓ کی شہادت ہمیں اطاعتِ رسول کا عظیم درس دیتی ہے۔