مسلم تنظیموں کے وفد نے آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو سے وجئے واڑا میں ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں آل انڈیا مسلم ویمن اسوسی ایشن کی نمائندگی ڈاکٹر اسما زہرہ، صدر آل انڈہا مسلم وہمن ایسو سی ایشن و تأسیسی رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ و نائب صدراسوسی ایشن ، محترمہ ممدوحہ ماجد، رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ اور ریاستی نائب صدر محترمہ تہنیت اطہر رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کی۔
ہندوستانی مسلمان برادری وقف ترمیمی بل 2024 پر گہری تشویش کا شکار ہے ۔ جسے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے۔ تلگو دیشم پارٹی کے سربراہ نے اس بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ سیکولر جماعتوں نے بھی اس بل کی مخالفت کی ہے ۔ توقع ہیکہ JPC اپنی رپورٹ موسم سرما کے اجلاس میں پیش کرے گی ۔ مختلف سیاسی جماعتو ں ، اداروں اور سماجی جہد کاروں کی ملاقاتیں اور انھیں یادداشتیں پیش کی جارہی ہیں ، تا کہ اس بل کی پر زور مخالفت کریں ۔مسلم تنظیمیں اس بل پر اپنے اعتراضات پیش کرنے کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں۔آج مسلم تنظیموں کے وفد نے سیکریٹریٹ میں چیف منسٹر کے دفتر میں جناب این ایم ڈی فاروق صاحب وزیر برائے اقلیتی امور کے توسط سے ملاقات کی۔ سابقہ آئی اے ایس افسر جناب شفیق الزماں نے مجوزہ وقف بل کے آئینی اور قانونی پہلوؤں کو وضاحت سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ بل میں آئینی اقدار کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور میڈیا میں گمراہ کن معلومات پھیلائی جا رہی ہیں۔ شفیق الزماں نے ہند ؤ انڈومنٹ ایکٹ کا مجوزہ بل سے موازنہ کرتے ہوئے مرکزی حکومت کے غیر منصفانہ رویے پر سوال اٹھایا اور چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو سے اپیل کی کہ وہ پارلیمنٹ میں اس بل کو روکنے میں خصوصی دلچسپی لیں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا فضل الرحمٰن مجددی نے اس ملاقات کے دوران کہا کہ صرف 13 دنوں میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس بل کے خلاف 3 کروڑ سے زائد دستخطیں جمع کی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بل ابھی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں ہے ۔ لیکن گجرات اور دیگر ریاستوں میں بل پر قبل از وقت عمل آوری شروع ہو چکی ہے ۔ درگاہوں اور قبرستانوں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے چندرا بابو نائیڈو اور تلگو دیشم پارٹی سے درخواست کی کہ وہ اس بل کو واپس لینے کے لیے بی جے پی پر دباؤ ڈالیں۔
آل انڈیا مسلم ویمن اسوسی ایشن کی صدر ڈاکٹر اسما زہرہ نے کہا کہ تلگو دیشم پارٹی نے 2018 کے طلاق بل کے وقت بھی ایک اصولی موقف اختیار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وقف کا مطلب مسجد، مدرسہ اور قبرستان ہے اور مسلمان برادری کی زندگی کا گہرا تعلق ان مذہبی اقدار سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ وقف بل ایک ایسا آلہ ہے جو باقی بچی ہوئی وقف جائیدادوں پر قبضے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اور منظم پیمانے پر حکومت کے تعاون سے وقف جائیدادوں پر قبضے کو جائز و قانونی شکل دینے کی کوشس کی جا رہی ہے۔ ملاقات کے اختتام پر وزیر این ایم ڈی فاروق صاحب نے کہا کہ چندرا بابو نائیڈو صاحب نے مسلمانوں کی تشویشات کو غور سے سنا ہے اور مناسب وقت پر اس معاملے پر غور کریں گے۔