تحریر: شیایئر کیتھرین
طالبان نے جب پچھلی مرتبہ سن 1996سے 2001 کے درمیان افغانستان کی باگ ڈور سنبھالی تھی تو اس اسلام پسند گروپ کی حکومت کو دنیا بھر میں تسلیم کرنے والے صرف تین ملکوں میں سعودی عرب بھی شامل تھا۔ دیگر دو ممالک میں پڑوسی ملک پاکستان اور متحدہ عرب امارات شامل تھے۔ ماضی میں دونوں شریک کار تھے لیکن آج سیاسی اور ثقافتی اختلافات نیز بعض تاریخی مسائل کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ ہیں۔
ماضی میں سعودی عرب کے ساتھ تعلق سے طالبان کو کافی فائدہ ہوا۔ مثلاً سعودی عرب نے ان مدارس کی مالی امداد کی جہاں سے طالبان تحریک ابھری۔ حالانکہ دونوں مختلف مسلک کے پیروکار ہیں۔ طالبان دیوبندی مسلک کو مانتے ہیں جبکہ سعودی عرب میں وہابیت رائج ہے۔
اسلام کے دفاع کے نام پر
سن اسّی کی دہائی میں جب سابقہ سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو سعودی عرب نے افغان جنگجوؤں کی مدد کی جنہیں مجاہدین کہا جاتا تھا۔ حالانکہ امریکا او ر سعودی عرب کے نظریات او رمقاصد ایک دوسرے سے الگ تھے۔ اس کے باوجود امریکا نے طالبان کی مدد کی۔ امریکی کمیونزم کو شکست دینے کے لیے جبکہ سعودی اسلام کا دفاع کرنے کے نام پر طالبان کا ساتھ دے رہے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ان دونوں ملکوں میں سے ہر ایک نے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں تقریباً چار چار ارب ڈالر خرچ کیے۔
سوویت یونین کی افغانستان سے واپسی اور سن 1990کی دہائی میں خانہ جنگی کے دوران بھی سعودی عرب طالبان کو مالی امداد فراہم کرتا رہا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نے بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود طالبان کو مبینہ طورپر ہتھیار بھی فراہم کیے۔ لیکن گیارہ ستمبر2001 کو جب القاعدہ نے امریکا پر خودکش حملے کیے، جس میں تقریباً تین ہزار لوگوں کی ہلاکت ہوئی، تو طالبان کے حوالے سے سعودی عرب کا موقف تبدیل ہوگیا۔
دہشت گردوں کی پناہ گاہ
سعودی عرب اور امریکا کے درمیان 1940ء سے ہی سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ امریکا سعودی مملکت کے سب سے مضبوط ترین تجارتی اور سکیورٹی اتحادیوں میں سے ایک ہے۔
سن 1998میں سعودی عرب نے طالبان سے القاعدہ کے سربراہ اور سعودی شہری اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ اسامہ بن لادن نے اس وقت افغانستان میں پناہ لے رکھی تھی۔ لیکن طالبان نے سعودی عرب کی درخواست ٹھکرادی۔ اس کی وجہ سے دونوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی اور طالبان کو سعودی مالی امداد تقریباً بند ہوگئی۔
نائن الیون کے واقعات نے تعلقات مزید خراب کردیے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان کی قیادت والے افغانستان سے اپنے تعلقات منقطع کرلیے۔ سعودی عرب نے طالبان پردہشت گردوں کو پناہ دے کر اسلام کو بدنام کرنے کا الزام عائد کیا۔
جرمن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی اور سکیورٹی امور کے تجزیہ کاروں نے سن 2013 میں ایک تحقیقاتی مقالے میں لکھا تھاکہ، ’’غیرسرکاری، مذہبی اور انفرادی سطح‘ پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات برقرار رہے ہیں۔‘‘
دوریاں بڑھتی گئیں
سعودی عرب نے اب اپنے پرانے اتحاد ی سے ناطہ توڑ لیا ہے۔ حالانکہ ایک مرحلے پر وہ طالبان اور معزول افغان حکومت کے درمیان مذاکرات میں ممکنہ مصالحت کار بنتا دکھائی دے رہا تھا لیکن خلیجی ملک قطر نے آگے بڑھ کر یہ ذمہ داری سنبھال لی اور پچھلے چند برسوں سے وہی مصالحت کار کا کردار ادا کررہا ہے۔
رواں ماہ افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سعودی وزارت خارجہ نے ایک محتاط بیان جار ی کیا۔ جس میں کہا گیا،”مملکت سعودیہ کسی طرح کی مداخلت کے بغیر افغان عوام کی پسند کے ساتھ ہے۔”
ماہرین کا خیال ہے کہ فوری طورپر اس بات کا امکان کم ہے کہ سعودی عرب اورطالبان کے درمیان رشتے استوار ہوسکیں۔ ماہرین کے مطابق سعودی عرب کے لیے امریکی اتحاد اب بھی اہم ہے اور ملک میں جاری ثقافتی تبدیلیاں بھی اسی کا حصہ ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اپنے ملک میں جدیدیت لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے میں ایک زیادہ کھلے اورآزاد معاشرے والا سعودی عرب دیگر ملکوں میں شدت پسند مسلمانوں کی حمایت شاید نہ کرے۔
بھارت کے معروف تھنک ٹینک آبزرور ریسر چ فاؤنڈیشن میں فیلو کبیر تنیجا نے گزشتہ ماہ لکھا تھاکہ ’’افغان بحران سعودی عرب کے لیے داخلی محاذ پر ایک چیلنج ہے۔ آنے والے دنوں میں سرمایہ کاری کا عالمی مرکز بنانے کے اپنے امیج کو برقرار رکھنے کے لیے ریاض کو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ افغانستان سے آنے والے جنگجوؤں کی پناہ گاہ نہ بن جائے یا انتہاپسندانہ سرگرمیوں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے کا مرکز نہ بننے پائے۔‘‘
علاقائی حریف
دراصل آج افغانستان کا پڑوسی ایران طالبان سے زیادہ قریب ہے حالانکہ دونوں کے مذہبی نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے فیلو وینے کاورا نے گزشتہ برس لکھا تھا،” تہران اور طالبان کے درمیان حکمت عملی کے سلسلے میں باہمی مفاہمت سے متعلق خبریں ملتی رہی ہیں۔ یہ سابقہ طالبان حکومت کے دور کے یکسر برخلاف ہے، جسے ایران کے کٹر حریف سعودی عرب کی سرپرستی حاصل تھی۔‘‘
امریکی ریاست ٹیکسس کی رائس یونیورسٹی کے بیکر انسٹیٹیوٹ میں مشرق وسطی امور کے ماہر کرسٹیان کوٹس کہتے ہیں،” سعودی عرب اور ایران آنے والے دنوں اور ہفتوں میں ایک دوسرے کے اقدامات پر قریبی نگاہ رکھیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ سعودی عرب میں مقیم علماء کرام اور مذہبی نیٹ ورک کے ذریعہ طالبان کے ساتھ کچھ غیر رسمی رابطہ ہوجائے لیکن ماضی کے اتحاد کی طرح اسے سرکاری امداد دینا یا تسلیم کرنا یا فی الحال مشکل دکھائی دیتا ہے۔
کوٹس کا خیال ہے کہ افغانستان کو کسی طرح کی مالی امداد فراہم کرنے کی کوشش سعودی عرب کی نیک نامی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جبکہ نائن الیون حملوں کے بیس برس مکمل ہونے میں چند دن باقی رہ گئے ہیں ایسے میں سعودی عرب کھل کر سامنے آنا پسند نہیں کرے گا تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سعودی عرب کے فیصلہ سازوں کی موجودہ نسل کے سامنے طالبان کی پرانی یادیں تازہ ہوجائیں۔
(بشکریہ : ڈی ڈبلیو)