نئی دہلی :گراؤنڈ رہورٹ
ملک میں ’آئی لو محمد‘ کے پوسٹر،بینر لگانے پر ایف آئی آر درج کی جا رہی ہیں جبکہ دیگر مقامات پر محض اسٹیکرز اور بینرز چھاپنے پر گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ ملک بھر میں 2000 سے زائد ایف آئی آر درج کرائی گئی ہیں، 100 سے زائد گرفتاریاں کی گئی ہیں اور ’’آئی لو محمد‘‘ تنازع کے فوراً بعد لوگوں کے گھروں اور دکانوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بلڈوزر ناانصافی کا کھیل دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔
اس اسٹوری میں تین سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کریں گے:
1.پہلا سوال "I love mohammed ” تنازع کیسے شروع ہوا؟
2.کیا”I Love Mohammad” کے نام پر پوری کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
3.آخر "ILove mohammed” کے نعرے لگا کر نفرت پھیلانے سے کس کو فائدہ ہوتا ہے؟
آئیے پہلے کچھ بیانات پر نظر ڈالتے ہیں، پھر پورے معاملے کا جائزہ لیتے ہیں۔
"وہ چھوٹے بچے جن کے ہاتھوں میں قلم ہونا چاہیے ، وٹ بک ہونی چاہیے، سائنس اور ریاضی کی کتابیں ہونی چاہئیں۔” کو ‘آئی لو محمد’ کا پوسٹر دے کر انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں
یوگی آدتیہ ناتھ، وزیر اعلیٰ (اتر پردیش)
یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ بیان 28 ستمبر کو بریلی میں ‘آئی لو محمد’ مہم کی حمایت میں انتظامیہ کو میمورنڈم پیش کرنے کے اپنے اعلان کے بعد شروع ہونے والے تنازعہ کے دو دن بعد دیا۔ سوال یہ ہے کہ اس بیان کا کیا مطلب ہے؟ کیوں قلم اور کسی کے مذہبی نظریات کا پوسٹر ایک ساتھ نہیں ہوسکتا ؟اے پی جے کلام، جنہیں بی جے پی مثالی ہندوستانی مسلمان مانتی ہے، جب وہ نماز پڑھتے تھے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے تھے چگپڑھتے تھے۔ تو کیا محمد نام لینے سے اے پی جے کلام کا قلم کمزور ہو گیا تھا ؟
ایک اور بیان سنیں۔
"ان احمقوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ایمان کی علامتوں کا احترام کیا جاتا ہے، محبت نہیں۔ ایمان ایسی چیز نہیں ہے جسے چوراہے پر ظاہر کیا جائے۔ یہ ضمیر کی بات ہے.”
یوگی آدتیہ ناتھ، وزیر اعلیٰ (اتر پردیش)،
کیا یہ آستھا پر گیان صرف مسلمانوں کے لیے ہے یا تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے؟ تو کیا پورے ملک اور اتر پردیش میں مختلف مذاہب اور آستھا سے متعلق پروگرام کو چوراہے اور سڑکوں پر روک دیا گیا ہے؟ نہیں نا ، ؟
سارا تنازعہ کیسے شروع ہوا؟”I Love Mohammadتنازع پوری اسٹوری جاننے سے پہلے، اس کا بیک گراؤنڈ سمجھنا ضروری ہے اور یہ بھی کہ اسے کیسے بھڑکا دیا گیا۔
دراصل، تنازعہ کانپور میں شروع ہوا. 4 ستمبر، 2025 کو، عید میلاد النبی، پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم ولادت پر ، راوت پور، صیاد نگر علاقے میں مسلم کمیونٹی کے اراکین نے ایک لائٹ بورڈ اور "میں محمد سے محبت کرتا ہوں” والا پوسٹر لگایا۔ یہیں سے تنازعہ کھڑا ہوا۔ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "آئی لو محمد” لائٹ بورڈ پہلے کبھی سجاوٹ کے لیے استعمال نہیں کیا گیا تھا، تو اب کیوں؟ یہ ایک نیا رجحان ہے۔کانپور کے ڈی سی پی ویسٹ دنیش ترپاٹھی کا دعویٰ ہے کہ:
"محلے کے لوگوں نے روایتی مقام سے ہٹ کر ایک ٹینٹ اور ” I love moha” کا بینر لگا دیا۔ ایک فریق نے اس پر احتجاج کیا۔ بعد ازاں باہمی رضامندی سے بینر روایتی مقام پر لگایا گیا”
"ایف آئی آر بے بنیاد اور فرضی‘‘ امام
دی کوئنٹ سے بات کرتے ہوئے مسجد کے امام مولانا شب نور عالم نے پولیس کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ
نہ کوئی ٹینٹ لگایا گیا اور نہ ہی کوئی مذہبی پوسٹر پھاڑے گئے۔ یہ ایف آئی آر سراسر بے بنیاد اور جعلی ہے۔
تاہم، کانپور کے ڈی سی پی ویسٹ دنیش ترپاٹھی نے دعویٰ کیا کہ ایف آئی آر "آئی لو محمد” لکھنے یا بینر پر درج نہیں کی گئی تھی، بلکہ جلوس کے دوران ایک طرف سے دوسری طرف کے پوسٹر پھاڑنے پر درج کی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر تنازعہ "آئی لو محمد” کے پوسٹر سے متعلق نہیں تھا تو پھر ایف آئی آر میں اس کا ذکر کیوں؟ ایف آئی آر میں نئے رجحان کا ذکر کیوں؟ انہیں دوسرے مذہب کے پوسٹر پھاڑنے پر براہ راست ایف آئی آر درج کرنی چاہئے تھی۔
اس ایف آئی آر کے بعد ملک بھر کے مسلمانوں میں غصہ دیکھا گیا۔ میسیج یہ گیا کہ ایف آئی آر "آئی لو محمد” لکھنے کی وجہ سے درج کی گئی ہے۔ بریلی میں بھی اس کے خلاف انتظامیہ کو میمورنڈم دینے کی بات ہوئی، لیکن حالات بگڑ گئے۔
بریلی کے ایس ایس پی انوراگ آریہ کے مطابق 30 ستمبر تک 10 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور 73 ملزمان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں مولانا توقیر رضا خان بھی شامل ہیں، جو اتحاد ملت کونسل کے صدر اور نبیرہ اعلی حضرت علامہ احمد رضا خان ہیں۔ ان کے اعلان کے بعد، مسلم کمیونٹی کے ارکان بریلی کی مختلف مساجد کے باہر جمع ہوئے، انہوں نے بینرز اور پوسٹرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا "میں محمد سے محبت کرتا ہوں۔” پولیس نے لوگوں کو اسلامیہ گراؤنڈ میں داخل ہونے سے روکا، پھر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے داغے۔ متعدد افراد اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب توقیر رضا خان ’’آئی لو محمد‘‘ کے معاملے کے حوالے سے میمورنڈم پیش کرنے کی بات کر رہے تھے تو کیا انتظامیہ نے میمورنڈم کو پرامن طریقے سے قبول کرنے کا راستہ نکالا؟ کیا انتظامیہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ مسلمانوں کا ایمان پیغمبر اسلام سے جڑا ہوا ہے؟ کیا انتظامیہ نے مولانا توقیر رضا کو کہا کہ وہ دو چار لوگوں کے ساتھ آئیں اور میمورنڈم جمع کرائیں، کیونکہ ابھی دوسرے دھرم کا تہوار تھا۔ کیا سبھی تہوار پرامن طریقے سے مناتے ہیں؟ اگر معاشرے میں امن اور ترقی کی حقیقی فکر ہے تو اس سارے معاملے کو حساسیت سے ہینڈل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟(دی کوئنٹ ہندی میں شاداب معیزی یکی رپورٹ)








