فکرو نظر:مفتی محمد اطہر شمسی
گزشتہ دنوں پہلگام میں دہشت گردانہ حملہ کے جواب میں ہندوستان نے پاکستان میں واقع متعدد مسلح تنظیموں کےٹھکانوں پر حملہ کیا ۔ہندوستان نے اس حملہ کا نام آپریشن سندور رکھا ۔ یہ لفظ ہندوستانی تہذیب سے مستعار ہے ۔اس کے برعکس پاکستان نے ہندوستانی افواج اور شہریوں کے خلاف کاروائی کا نام بنیان مرصوص رکھا جو کہ خالص قرآنی اصطلاح ہے ۔( الصف 61:04 ) بنیان مرصوص کے معنیٰ ہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار۔ قرآن میں بنیان مرصوص انسانیت کے دشمنوں سے لڑنے پر مجبور ان اہل ایمان کو کہا گیا ہے جن کی طاقت و اتحاد نا قابل شکست ہو ۔
سیاسی مقاصد کے لیے اسلامی اصطلاحات کا استعمال نہایت غیر صحت مند مزاج ہے۔پاکستان اپنے قیام کے رزو اول سے ہی اسلامی اصطلاحات کا سیاسی اور فوجی استعمال کرتا رہا ہے ۔1947 میں پاکستان کا قیام اسلام اور مسلمانوں کے نام پر عمل میں آیا ۔تحریک پاکستان کے دوران نعرے لگائے گئے ” پاکستان کا مطلب کیا ، لا الہ الا اللہ ۔7 مارچ 1949 کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں پاس ہوئی قرار داد مقاصد میں کہا گیا کہ اقتدار اعلیٰ محض اللہ کے لیے ہے ۔1956 کے آئین میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔ 1971 میں اپنے ہی بنگالی مسلمان شہریوں کا قتل عام کیاگیا ۔ اس موقع پر لاکھوں بنگالی مسلم خواتین کی عصمت دری کی گئی اور حیرت ہے کہ الشمس جیسے گروپ اس لڑائی کوجہادبتاتےاورافواج پاکستان کےشانہ بہ بشانہ لڑتےرہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں جہاد ، مجاہد ، شہید جیسے قرآنی الفاظ کا سیاسی استعمال عام ہو گیا ۔ اسلامی اصطلاحات کی سیاسی تشریح کس طرح پاکستان کے نصاب میں شامل کی گئی ، اس کی تفصیل معروف پاکستانی مؤرخ کے کے عزیز کی کتاب Murder of History میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ان نصابی کتابوں کے ذریعہ پاکستان میں ہندوستان کے خلاف نفرت کو نارملائز کیا گیا۔ 1999 میں کارگل جنگ کو بھی جہاد کہا گیا۔
اُمت اور ملت کو پاکستانی نیشنل ازم کے ہم معنی قرار دیا گیا ۔جبکہ قرآن کے مطابق اُمت وہ بین الاقوامی ادارہ ہے جو بلا تفریق مذہب تمام انسانیت کا خیر خواہ ہو۔ ( آل عمران 3:110) اسی طرح ملت صراط مستقیم پر چلنے کا نام ہے جو ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے ۔( الانعام 6:161)۔ان اصطلاحات کا کوئی تعلق موجودہ سیاسی مقاصد سے نہیں ہے ۔
ہندوستان میں بے قصور شہریوں پر ہونے والے حملوں کو بھی پاکستان میں جہاد سمجھا جاتا ہے ۔جبکہ قرآن کے مطابق مسلح جہاد ایک خالص دفاعی لڑائی کا نام ہے جس کی اجازت انہیں لوگوں کو دی گئی ہے جن کے خلاف جنگ چھیڑ دی گئی ہو ۔ ( الحج 22:39) جہاد کا کوئی تعلق سرحدوں کی توسیع یا سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے لڑی جانے والی جنگ سے نہیں ہے ۔پاکستان میں جو مسلح افراد ہندوستانی افواج کے ہاتھوں مارے جائیں انہیں بلا جھجھک شہید قرار دیا جاتا ہے ۔جبکہ قرآن میں شہید ان اہل ایمان کو کہا گیا ہے جو اپنے کردار کے ذریعہ ہمیشہ حق اور انصاف کی گواہی دیں ( البقرۃ 2:143) . قرآن میں خود اللہ کو بھی شہید کہا گیا ہے کیونکہ وہ گواہ ہے ( الانعام 6:19 ) .کوئی ملک جب اپنے فوجیوں کو شہید کہتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے اس ریاست کا شہید۔ لیکن پاکستان کا کوئی فوجی یا شہری جب ہندوستانی افواج سے لڑتے ہوئے مارا جائے تو اسے ایک مذہبی اور اسلامی شہید بھی تصور کیا جاتا ہے ۔
سوال یہ بھی ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص اگر قرآنِ کے الفاظ میں واقعی سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھی تو وہ ہندوستانی افواج کے سامنے اتنی جلدی منہدم کیوں ہو گئی؟ فوجی کارروائی روکنے کے لیے پاکستان کو ہندوستان سے اپیل کیوں کرنی پڑی ؟آپ کا ایئر ڈیفنس سسٹم ہندستانی فضائیہ کے مقابلہ میں کیوں نا کام ہو گیا ؟ یہ کیسی” بنیان مرصوص” تھی جسے خود اپنے بچاؤ کے لیے عام شہری پروازوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا پڑا ؟ یہ کون سی ” بنیان مرصوص ” تھی جو کشمیر میں نہتے مسلمانوں پر ہی گولہ باری کر کے انہیں قتل کر رہی تھی ؟۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور اسلامی اصطلاحات پاکستان کے لیے محض اپنے سیاسی مفادات کے حصول کا ذریعہ ہیں ۔حیرت اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ بعض استثناء کو چھوڑ کر علماء پاکستان عام طور پر ریاست پاکستان کے اس جرم پر یا تو خاموش رہتے ہیں یا پھر جرم میں شریک ہوتے ہیں ۔ علماء پاکستان کا یہی وہ رویہ ہے جسے سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے اپنی کتاب Pakistan: Between Millitary and Mosque میں نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔
پاکستان کے ذریعہ اسلامی اصطلاحات کے غلط استعمال کا نتیجہ براہ راست طور پر ہندوستانی مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔پاکستان اسلامی اصطلاحات کا استعمال اپنے سیاسی اور فوجی مقاصد کے لیے کرتا ہے ۔اصطلاحات ایک ہونے کی وجہ سے ہندوستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ یہاں کے مسلمانوں کو بھی پاکستان کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے لگتا ہے ۔بسا اوقات ہندوستانی مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.اُن میں ایک قسم کا احساس کمتری جڑیں پکڑ رہا ہے ۔ خود کو غلط سمجھ لیے جانے کا ڈر ہندوستانی مسلمانوں کے ذہن کا حصہ بن چکا ہے ۔جس کی وجہ سے وہ ملک کی ترقی میں بھرپور اور مطلوب کنٹری بیوشن نہیں دے پا رہے ہیں۔ Stuart Hall کے الفاظ میں ہندوستانی مسلمانوں کو ان آئیڈیالوجی اور اعمال کے لیے جواب ده ہونا پڑتا ہے جن کی انہوں نے کبھی حمایت نہیں کی ۔
ہندوستانی مسلمانوں کی اس ذہنی و فکری پسپائی کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ریاست پاکستان ہے ۔وقت آ گیا ہے کہ ہائی جیک کی گئی اسلامی اصطلاحات کو اب پاکستان کے اثرات سے آزاد کرایا جائے ۔دنیا کو بتایا جائے کہ پاکستان اور اسلام ایک نہیں ہیں ۔پاکستان اور اسلام کو ایک سمجھ لیے جانے کی غلطی عرب دنیا اور اسلامی دنیا سے ہمارے تعلقات کو کمزور کر سکتی ہے ۔یہ غلطی ملک کی دو بڑی کمیونیٹی کے درمیان تعلقات کو بھی متاثر کر سکتی ہے ۔ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام وہ ہے جو قرآن میں ہے نہ کہ وہ جو پاکستان میں ہے ۔ریاست پاکستان کو بھی یہ بات بخوبی طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ اگر اسے ہندوستان سے لڑائی جاری رکھنی ہے تو وہ اپنے دم پر ایسا کرے ۔اپنی جنگ اسلام کے کاندھوں پر ڈالنا ایک اخلاقی بزدلی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔اسلام اور ہندوستانی مسلمان آپ کی اس جنگ سے پوری طرح بری ہیں ۔(مضمون نگار القرآن اکیڈمی کیرانہ کے ڈائریکٹر ہیں)