کلیم الحفیظ
اسلام میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے محبت اور عقیدت ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ایک مسلمان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ سچے دل سے آپ سے محبت نہ کرے ۔یہ محبت بھی کوئی عام محبت نہ ہوگی بلکہ دنیا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر ہونی چاہئے ۔یعنی اپنے ماں باپ،اپنے اساتذہ ،اپنے پیر و مرشد اور اپنی اولاد و اہل و عیال یہاں تک کہ اپنی جان سے بڑھ کر اگر یہ محبت نہیں ہے تو ایمان نہیں ہے ۔بعثت نبوی ﷺ سے لے کر آج تک کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ مسلمانوں نے آپ کی محبت میں اپنی جان کے نذرانے ہنسی خوشی پیش کیے ۔اگر آج سے چودہ سو سال پہلے مکہ میں آپ ؐ کے عظیم المرتبت صحابی حضرت خباب ؓ کفار مکہ سے یہ کہتے ہیں کہ میری جاں بخشی کے بدلے میں اگر تم یہ چاہتے ہو کہ میرے آقا کے پائوں میں صرف کانٹا چبھائو تو مجھے یہ بھی گوارا نہیں توآج چودہ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی آپ کے ہر امتی کے یہی جذبات ہیں ،آپ کا امتی سب کچھ برداشت کرسکتا ہے مگر آپ ؐکی شان میں جملے تو کیا ایک حرف بھی برداشت نہیں کرسکتا۔کتنے ہی عاشقان رسول نے توہین رسالت کے مجرموں کو موت کی نیند سلادیا اور اس کے عوض میں اپنی جان قربان کردی ۔محبت رسول کی یہ چنگاری ایک عالم و عابد اور متقی و پرہیزگار سے لے کر بڑے سے بڑے گناہ گار مسلمان کے اندر موجود ہے ۔
سوال یہ ہے کہ مسلمان کہیں بھی اور کبھی بھی کسی کے دیوی دیوتا ئوں کی توہین نہیں کرتے ،قرآن مجید میں خود اللہ نے اس عمل سے روکا ہے۔ اس کے باوجود دشمنان اسلام کو نبی ﷺ سے اتنی عداوت کیوں ہے ؟کیوں ساری دنیا میں اسلام مخالفین عناصر آپ کی ذات ا قدس کو نشانہ بناتے ہیں؟کہیں کوئی کارٹون بنا کر آپ کی توہین کرتا ہے۔کوئی ابلیس شیطانی آیات لکھتا ہے،کہیں سوشل میڈیا پر بکواس کی جاتی ہے؟کسی کو آپ ؐ کی ازواج مطہرات سے نفرت ہے؟غرض ساری دنیا کے شیطان کسی نہ کسی صورت آپ ؐ کی شان میں گستاخی کرتے رہتے ہیں۔ مغربی دنیا کے مقابلے بھارت میں اس طرح کے واقعات شاذو نادر ہی ہوتے رہے ہیں اور جب بھی ہوئے ہیں بھارت کے حکمراں طبقے اس کی مذمت کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ سات آٹھ سال سے ان مذموم واقعات میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ ملعونوں کو حکمرانوں کی خاموش تائید بھی حاصل ہوتی رہی ہے اور یہی بات زیادہ تشویشناک ہے۔جب کہ بھارت کے آئین کے مطابق مذہبی جذبات کو مجروح کرنا جرم ہے ۔
بعض لوگ اس معاملے کو اظہار رائے کی آزادی کے تحت شمار کرتے ہیں۔خاص طور پر مغرب میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہر شخص کو اپنے خیالات اور نظریات کے اظہار کا حق ہے۔لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اظہار رائے کی آزادی مطلقاًآ ّزاد کیسے ہوسکتی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ رائے کی آزادی اور گالیاں دینے میں بڑا فرق ہے۔اگو کوئی شخص اسلام کے نظریات پر گفتگو کرتا یا سوال اٹھاتا ہے اور ادب و احترام کا خیال رکھتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے مثال کے طور پر کوئی فرد توحید ، رسالت اور آخرت کے عقیدے کے وجود،اس کے ممکن ہونے یا ناممکن ہونے پر علمی مباحثہ کرتے ہوئے اپنی کوئی رائے پیش کرتا ہے اور وہ اسلام کی واضح تعلیمات کے خلاف ہوتی ہیں تب بھی نہ صرف اس کو سنا جائے گا ،اس کا علمی جواب دیا جائے گا بلکہ اس طرح کے علمی مباحثے کا خیر مقدم کیا جائے گا کیوں کہ یہ مباحثے اسلام کو سمجھنے کے لیے ہوں گے ۔لیکن کوئی شخص جہالت پر اترکر علمی اعتراض کے بجائے ،مذاق اڑاتے ہوئے پھبتیاں کستا ہے ،کارٹون بناتا ہے اسور گالیاں دیتا ہے تو یہ حرکت اظہار رائے کی آزادی میں شمار نہیں کی جاسکتی اس لیے کہ ہنسی اڑانے،مذاق بنانے ، پھبتیاں کسنے،گالیاں دینے اور علمی مباحثہ کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ شعائر اسلام کی بے حرمتی یا توہین رسالت پر جب مسلمان احتجاج کرتے ہیں تو میڈیا یہ باور کراتا ہے کہ مسلمان اپنے خلاف کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہیں ۔میڈیا کی بنائی یہ تصویر مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کردیتی ہے۔حالانکہ اسلام ہی وہ اکیلا دین ہے جو سوچنے اورغور و فکرکرنے کی وکالت کرتا ہے اور اپنے پیغمبر کو بھی مشاورت کا حکم دیتا ہے،اسلام اختلاف رائے کی اجازت بھی دیتا ہے اور حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔اسلامی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر خلیفہ کو بھی ایک بڑھیا ٹوک دیتی ہے۔اختلاف رائے الگ چیز ہے اور توہین کرنا بالکل الگ چیز۔مسلمان اپنے ہم وطنوں سے اس کامطالبہ نہیں کرتے کہ وہ حضرت محمد ﷺ پرلازماً ایمان لائیں ،یا ان سے محبت کریں ،یا ان سے اختلاف رائے نہ رکھیں ،لیکن اس کا مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ وہ نبی ﷺ کا نام احترام سے لیں،ان کے تعلق سے کوئی بے بنیاد بات نہ کہیں ،ایسے الفاظ کا استعمال نہ کریں جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہو ،اس لیے کہ دل کا دکھانا کسی بھی مذہب میں پسندیدہ نہیں ہے۔جس دھرم میں چوہے،بندراور کتوں کو بھی دیوتا مانا ہوگیا ہے۔اس دھرم کے ماننے والوں سے کون امید کرسکتا ہے کہ وہ اس ذات کی توہین کرے جس کو آدھی دنیا اپنا ہیرو تسلیم کرتی ہے ،جس پر جان دینے والوں کی تعداد اربوں میں ہے،جس کے نام لیوا زمین کے ہر حصے میں پائے جاتے ہیں ،جس کا نام ہر لمحے فضائوں میں گونجتا ہے ،جس کی تعریف اس کے دشمن بھی کرتے ہیں ،مائکل ہارٹ جیسے متعصب عیسائی نے 1978میں جب دنیا کے سو بڑے انسانوں کی فہرست بنائی تو وہ اس بات کے لیے مجبور ہوگیا کہ حضرت محمد ﷺ کا اسم گرامی سب سے اوپر رکھے۔اس ذات اقدس کی شان میں گستاخی کو کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے جو ہمارے دل کی دھڑکن ہو ،جس کی بدولت دنیا کو سچائی کا راستا ملا ہو،جس نے کبھی کسی پر نہ ظلم کیا ہو،نہ کسی کا حق مارا ہو،نہ کسی کا دل دکھایا ہو۔نرسنگھ آنند ہو یا تسلیمہ و رشدی ان لوگوں کی یہ حرکات دراصل بو جہلی سلسلے کی ہی کڑی ہے۔اس پورے گروہ کی نبی ﷺ سے عداوت اور دشمنی عصبیت کی بنیاد پر ہے ۔نبی ﷺ کی عظمت اور آپ کے جاں نثاروں کی عقیدت دیکھ کرابو جہل بھی اپنے نسلی اور خاندانی غرور میں پاگل ہوگیا تھااور آج کے نرسنگھ کو بھی یہی دکھ ہے کہ عرب کا ایک یتیم در یتم کیوں بن گیا۔
توہین رسالت کے واقعات اسلام مخالف قوموں کے ذہنی دیوالیہ پن اور ان کی شکست خوردگی کی علامت ہیں۔ان کے پاس حضرت محمد ﷺ کی طرح کوئی بے داغ کردار نہیں ہے تو وہ کھسیاہٹ میں حضور کے دامن کو داغدار کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔بھارت کی موجودہ مرکزی حکومت کے بنیاد ی نظریات میں اسلام دشمنی شامل ہے اس لیے وہ بھارتی مسلمانوں کو ہر دن نئے زخم دینے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔مگر ہمیں شکوہ اپنے ان سیکولر سیاسی رہنمائوں سے ہے جو مسلم ووٹوں پر زندہ ہیں لیکن مسلم ایشوز پر لب کشائی کی زحمت نہیں کرتے یہاں تک کہ شان رسالت میں گستاخی جیسے غیر انسانی ،غیر اخلاقی اور غیر آئینی جرم پر بھی خاموش ہیں۔اسی طرح مسلم ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کی اکثریت بھی اپنی پارٹی کی ناراضگی نہیں مول لینا چاہتی۔اس موقع پر اگر مذہبی گروہ کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنما بھی آگے آئیں اور جمہوری طریقوں سے اپنی بات دنیا کے سامنے رکھیںتو باطل کے حوصلے پست ہوسکتے ہیں ،اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آئینی عدالتوں میں ان ملعونوں کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں۔میں اس بات کی وکالت یا حمایت تو نہیں کرتا کہ کوئی شخص جذبات میں آکر قانون اپنے ہاتھ میں لے لیکن اپنے ہاتھوں سے قانون کا صحیح استعمال توہم سب کرہی سکتے ہیں۔